اسرائیل اب پرکشش سیاحتی مرکز نہیں رہا

ایک ایسے وقت میں جب بہت سے ترقی یافتہ ممالک مزید کثیر النسل اور سیکیولر بننے کے راستے پر گامزن ہیں ایسا لگتا ہے اسرائیل کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ یہ کسی بھی طرح جینا آسان نہیں بنا رہا۔ 

آخر اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے، کیا اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے؟ (اے ایف پی)

دو ہفتوں تک جاری رہنے والی بمباری کے بعد پہلی بار اسرائیل اور غزہ کے فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے میں مرکزی کردار مصر کا تھا جسے براہِ راست شریک ہوئے بغیر امریکہ کی خاموش تائید حاصل تھی۔ کچھ وقت کے لیے مزید انسانی جانوں کی پامالی سے تحفظ کے باوجود یہ عارضی جنگ بندی مسئلے کو حل تو کیا کرے گی، اس سے کوئی بڑا فرق بھی نہیں پڑنے والا۔ متنازع علاقے اور فوجی طاقتوں میں واضح عدم توازن کے باعث موجودہ شرائط پر دیر پا امن بھی ممکن نہیں استحکام تو بہت دور کی بات ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس تنازعے میں انسانی و مالی نقصان واضح طور پر غیر متوازن رہا۔ اسرائیل کی 12 ہلاکتوں کے مقابلے میں 200 سے زائد فلسطینی زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد اور انفراسٹرکچر کی بڑی تباہی اس کے علاوہ ہے جس کے بعد اسرائیل گذشتہ دو ہفتوں میں ایک بار پھر اخلاقی طور پر شکست خوردہ نظر آیا۔

ایک ایسے وقت میں جب وہ کرونا کی وبا کے خلاف مہم میں اپنے قائدانہ کردار کے لیے عالمی خبروں کی زینت بنا رہا اور کسی دیگر مقام کی طرح ایک بار پھر خود کو چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین ساحلی مرکز کے طور پر مشتہر کر رہا تھا، اس جنگ کے باعث اسرائیل سب کچھ گنوا کر جہاں سے سفر شروع کیا تھا وہیں واپس آن کھڑا ہوا ہے۔ اسرائیل کی شہرت آج ایک حملہ آور کی ہے۔ ایک غنڈا، عورتوں اور بچوں کو زندگیوں سے کھیلنے والا۔

اس مقام پر (اور طویل مدت سے جاری اس تنازعے میں آپ جس طرف سے بھی ہوں آپ کو ضرور پوچھنا چاہیے) کس لیے، آخر کیونکر اسرائیل نے اپنے ساتھ ایسا کیا، کیا واقعی کوئی اور راستہ نہیں تھا؟ نہایت بے دلی سے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ میرا نہیں خیال موجودہ صورت حال میں کوئی اور راستہ تھا یا کم سے کم فی الوقت کوئی اور ایسا راستہ نظر نہیں آتا جس پر چلنے کے لیے اسرائیل رضامند ہو۔

بہت سے اسرائیلی اعتراض کرتے ہوئے کہیں گے فتح کے بجائے دکھ کی تصاویر گہرے اثرات کی حامل ہوتی ہیں اس لیے جانب داری برتتے ہوئے میڈیا پر انہیں بکثرت دکھایا گیا لیکن یہ سوال نظر انداز کر دیا گیا کہ آخر 'یہ جنگ شروع کس نے کی تھی؟  کیا یہ بیت المقدس کے روایتی طور پر عرب سے منسلک حصے سے لوگوں کو بے دخل کرنے کی دھمکی تھی یا مبینہ طور پر مسجد اقصیٰ کے اندر اور ارد گرد اشتعال انگیزی تھی؟ اور ممکن ہے یہ معاملہ اتنی شدت اختیار نہ کرتا اگر حماس کے زیر انتظام غزہ میں جنگجو افراد نے تل ابیب  ائیرپورٹ کی سمت راکٹ نہ داغے ہوتے؟ اور اب اسرائیل کی حکمت عملی کیا ہو گی؟

کیا اسرائیل کا غزہ کے ارد گرد اور زیر زمین سرنگوں کا سلسلہ تباہ کرنے کا واضح فیصلہ حماس کے جانب سے حملے کے خطرے کے باوجود خود غرضی پر مبنی اقدام تھا؟ آپ کا جواب ’ہاں‘ میں ہو گا اگر آپ فلسطینی یا خود ساختہ غیر جانبدار مبصر ہیں تو، اگر آپ کچھ زیادہ ہی اسرائیلی ہیں تو ’نہیں‘ کہہ دیں گے۔

تقریباً گذشتہ 40 برس سے میرا اسرائیل میں آنا جانا ہے، وہاں اچھی خاصی بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک بہت کچھ جوں کا توں ہے۔ معیار زندگی بے حد بہتر ہوا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اسرائیلی شہری جدید سفری سہولیات اور صحت و صفائی کے جدید نظام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہاں بہترین سڑکیں، شاندار گھر، اچھی صحت اور سماجی سہولیات میسر ہیں۔ اس کی جدید ترین ٹیکنالوجی، دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اور اپنے کئی کاروباری افراد ہیں۔ اس نے صحرا کو آباد کر دکھایا اور حد تو یہ ہے کہ ناشپاتی تک برآمد کرنے لگا ہے۔ اگر آپ بطور مہمان وہاں جائیں تو 1950  کی دہائی کے پس ماندہ اسرائیل یا بد ذائقہ عالمی ہوٹلوں کے سلسلے سے واسطہ نہیں پڑتا۔ اسرائیل میں بہترین سیاحتی مقامات اور خریداری کے مراکز ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر بطور مہمان شاپنگ مال کے استقبالیہ پر پہنچتے ہیں تو آپ کا سامنا ایک مسلح سکیورٹی گارڈ اور ایئر پورٹ طرز کی ایکسرے مشین سے ہوتا ہے اور آپ کو خیال آتا ہے کہ آپ سکیورٹی کے معاملے میں دنیا کے حساس ترین ملکوں میں سے ایک کے اندر موجود ہیں۔ سکیورٹی کے معاملے میں اس قدر حساسیت کا ایک پس منظر ہے۔ 1948 میں جدید ریاست کے طور پر وجود میں آتے ہی اسرائیل کو اپنی بقا  خطرے سے دوچار نظر آئی۔ ابتدائی طور پر اس میں قیام پذیر ہونے والے لوگوں میں اکثریت ہولوکاسٹ یا شمالی افریقہ میں جنگ اور ظلم و ستم سے بچ نکلنے والوں کی تھی اور آج اسرائیل جس خوشحالی اور جمہوریت سے فیضیاب ہو رہا ہے اس کا زیادہ تر سہرا ان کی اولادوں کے سر جاتا ہے۔ 

اگرچہ جیسے جیسے اسرائیل اپنی ظاہری حالت بہتر کرتا گیا اور جدید ریاست کے طور پر اپنے خد و خال وضع کیے اسے اپنی بنیاد میں یہودی ریاست ہونے کے ناطے اپنے ارد گرد کے ممکنہ دشمنوں سے خطرات بھی بڑھتے گئے۔ 1967 کی جنگ میں فتح سے قبل اس کی جنگی ذہنیت ایک جواز رکھتی تھی لیکن موجودہ حالات میں اس کی وکالت مشکل نظر آتی ہے۔ اس کی جنگی صلاحیت و استعداد اسے ناقابل شکست بناتی ہے جس میں غیر حتمی اندازے کے مطابق ایٹمی طاقت بھی شامل ہے۔ لیکن حفاظتی بندوبست (مرد و خواتین سب کے لیے لازمی فوجی تربیت، وسیع ذخائر، باقاعدہ سول ڈیفنس مشقیں) ہر چیز پر حاوی نظر آتا ہے۔ بر سبیل تذکرہ، ویکسی نیشن میں کامیابی کی ایک وجہ ایسی موثر تنظیم سازی بھی ہے۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان ناہموار تعلقات ہیں۔ شام میں دس برس سے جنگ جاری ہے۔ لبنان ایک کے بعد ایک بحران کی زد میں ہے۔ عرب بہار سے لے کر ابھی تک اردن اور مصر میں ترقی کا سفر تعطل کا شکار ہے جبکہ اس دوران میں فلسطین کے دارالحکومت رام اللہ میں زندگی کا معیار کافی بہتر ہوا ہے اور اسرائیل کے زیادہ تر علاقوں میں اور پہلی دنیا کے ملکوں میں فرق تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ 

لیکن ناہمواری اسرائیل کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ ایک حد تک یہ مادی سطح پر ہے جیسا کہ یہودی اور عرب آبادیوں والے مخصوص علاقوں میں رہائش پذیر افراد کے درمیان معیار زندگی کا فرق۔ جبکہ ماضی میں مشرقی بیت المقدس بقایا شہر کا حصہ تھا اب ایسا نہیں رہا، اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کا مطلب ہے یورپ سے مشرقِ وسطیٰ میں داخل ہونا۔ لیکن اس کے ساتھ بود و باش اور ثقافت کی مجبوریاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں جو روزمرہ زندگی کے تانے بانے کو تار تار کرنا چاہتی ہیں۔

راسخ العقیدہ یہودیوں کی تعداد پہلے سے زیادہ اور وہ الگ تھلگ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں جنہیں متنازع طور پر قومی تعمیراتی کام یعنی فوجی مشقوں سے چھوٹ دی گئی ہے۔ ان کی اور عرب اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کا مطلب ہے یہودی اکثریت کا مرکزی دھارا اسی تناسب سے سکڑ جائے گا۔

جہاں تک ان کا تعلق ہے تو وہ اکثریت نہ صرف گھٹتے ہوئے اثر و رسوخ بلکہ قیام اسرائیل کی دیو مالائی کہانیوں کے خاتمے کے خوف میں بھی مبتلا ہے جس میں ہولوکاسٹ کے آخری براہ راست گواہوں کا دنیا سے گزر جانا شامل ہے۔ اللد‎ کے علاقے میں اور یہودیوں اور عربوں کی مشترکہ آبادیوں والے دیگر علاقوں میں برپا ہونے والا ظلم و تشدد اور اس کے بعد یروشلم میں پرتشدد کارروائیاں اور غزہ کے راکٹس حملے پریشان کن مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ایک طرح سے اپنی مضبوط دفاعی قوت اور ریاستی سطح پر کسی بھی جنگی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریوں کے سبب ماضی کی نسبت اسرائیل کہیں زیادہ محفوظ ہے، لیکن اس کی عدم تحفظ کی ذہنیت کئی اعتبار سے ویسی کی ویسی ہے جیسا کہ یہ تصور کہ دنیا بھر میں یہودیوں کی آخری اور شاید اکلوتی محفوظ پناہ گاہ اسرائیل ہے، اس نقطہ نظر کو یورپ میں دوبارہ سر اٹھاتی یہود دشمنی کی لہر سے نئی تقویت ملی ہے۔

جب تک عدم تحفظ کا یہ احساس برقرار رہے گا غزہ سے آنے والے میزائلوں پر عالمی برادری کے حمایت حاصل کرنے کے بجائے تباہ کن بھاری اسلحے کے استعمال کو فوقیت رہے گی۔ جیسا کہ اسرائیل کے طرزِ عمل سے واضح ہے اس کا کوئی متبادل راستہ مشکل ہے۔ لیکن مسائل یہیں ختم نہیں ہو جاتے۔ جتنا زیادہ اسرائیل بیرونی اور اندرونی طور پر خود کو گھرا ہوا سمجھتا ہے اسی قدر وہ اپنی اور اپنی یہودی النسل شناخت کے تحفظ کے لیے زیادہ فکرمند ہو جاتا ہے جس وجہ سے ہمیشہ کی طرح وہ بین الاقوامی ہوا کے خلاف پرواز کرتا رہے گا۔

ایک ایسے وقت میں جب بہت سے ترقی یافتہ ممالک مزید کثیر النسل اور سیکیولر بننے کے راستے پر گامزن ہیں  ایسا لگتا ہے اسرائیل میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اس سے جینا آسان نہیں ہوتا، نہ اسرائیل کے لیے، نہ پورے خطے یا بیرونی دنیا میں کم ہوتے ہوئے اسرائیل کے دوستوں کے لیے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا