کرونا جانوروں سے پھیلا یا چینی لیب سے؟ بائیڈن نے رپورٹ مانگ لی

امریکی صدر نے انٹیلی جنس اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوششیں دگنی کر دیں کہ وائرس پہلے جانوروں سے آیا یا چینی لیب سے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مارچ میں وائرس کے ابتدا کے حوالے سے رپورٹ مانگی تھی کہ کییا یہ ’بیمار جانور سے انسانی رابطے سے پھیلا یا پھر کسی لیب حادثے سے۔‘ (اے ایف پی فائل)

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو امریکی انٹیلی جنس اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ انہیں تین ماہ کے اندر رپورٹ تیار کر کے دیں کہ آیا کووڈ 19 بیماری پھیلانے والا وائرس چین میں کسی جانور سے پھیلا یا کسی لیبارٹری میں حادثے سے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں صدر بائیڈن نے ایجنسیوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ ’ایسی معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی اپنی کوششوں کو دگنا کریں جن سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جایا جا سکے اور مجھے 90 دن میں رپورٹ کریں۔‘

بائیڈن کے مطابق ایجنسیاں اس وقت وائرس کے پھیلنے کے دو ممکنہ ذریعوں کے حوالے سے بٹی ہوئی ہیں۔

گذشتہ سال سے دنیا بھر میں پھیلنے والے سارس کوو 2 وائرس سے اب تک دنیا میں 34 لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔

صدر بائیڈن کے احکامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب وائرس پھیلنے کے حوالے سے متنازع سوال ہو رہا ہے کہ آیا یہ ووہان میں ایک جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلا یا پھر وہیں ایک سکیور ریسرچ لیب سے۔

اس سوال کے جواب کے نتائج امریکہ کے لیے اہم ہوں گے اور چین کے لیے بھی کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ وبا کا ذمہ دار نہیں۔

امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (این آئی ایچ) پہلے ووہان میں چمگادڑوں میں کرونا وائرس پر ریسرچ کی فنڈنگ کر چکا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے کسی تجربے کی حمایت نہیں کی جس سے وائرس کو مزید بدل کر انسانوں میں منتقل ہونے کے قابل بنایا جائے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گذشتہ سال اس ریسرچ گرانٹ کو ختم کر دیا تھا۔

ووہان سے وائرس پھیلنے کے مفروضے کو حزب اختلاف رپبلک پارٹی کے رہمنا این آئی ایچ کے ڈاکٹر فاؤچی اور بیجنگ پر تنقید کے لیے بھی استعمال کر چکے ہیں۔  

بائیڈن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مارچ میں وائرس کی ابتدا کے حوالے سے رپورٹ مانگی تھی کہ کیا یہ ’بیمار جانور سے انسانی رابطے سے پھیلی یا پھر کسی لیب حادثے سے۔‘  

ان کا کہنا تھا کہ تاحال امریکی انٹیلی جنس ادارے ’دو ممکنہ منظر ناموں‘ پر متفق ہیں مگر اس سوال پر ’کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے نائب پریس سیکریٹری کیرن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ انٹیلی جنس اداروں نے ایک ماہ پہلے بائیڈن کو اپنے اس تجزیے سے آگاہ کیا تھا مگر یہ معلومات اب تک خفیہ رکھی گئی تھیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کا خیال ہے کہ اس وائرس کو جان بوجھ کر بائیو ہتھیار بنانے کے لیے انجینیئر کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا: ’ہم نے ابھی تک کسی چیز کو مسترد نہیں کیا۔‘

وائرس کے لیب سے لیک ہونے کے مفروضے پر چین انتہائی ناخوش ہے اور بدھ کو جینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لیجیان نے جواب میں واشنگٹن پر ’سازشی مفروضے اور غلط معلومات پھلانے‘ کا الزام لگایا۔

تاہم اس کے باوجود امریکہ میں یہ مفروضہ پھیلتا جا رہا ہے جہاں اسے پہلے سابق صدر اور ان کے مشیروں نے ہوا دی تھی۔

ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے اتوار کو رپورٹ کیا تھا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کے تین ریسرچر نومبر 2019 میں ایک موسمی بیماری سے بیمار ہوئے تھے۔

اخبار کے مطابق یہ بیجنگ کی جانب سے ایک پراسرار نمونیا کے پھیلاؤ کی خبر عام کرنے سے ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔

وائرس کی شروعات کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ چمگادڑوں میں ابھر اور ان سے ممکنہ طور پر کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وبا کے آغاز میں اس خیال کو کافی حد تک قبول کر لیا گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کو ابھی تک چمگادڑوں اور دوسرے جانوروں میں ایسا کوئی وائرس نہیں ملا جس کے جنیاتی سگنیچر سارس کوو 2 جیسے ہوں۔

ایسا پہلے نہیں ہوا۔ اس سے قبل سارس اور مرس کی وباؤں کے دوران بھی کرونا وائرس انسانوں میں منتقل ہوئے اور جلد ہی اس بات کا پتہ لگا لیا گیا کہ یہ سیوٹ نامی جانور اور اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین بھیجی گئی ایک ٹیم کی تحقیقات میں غیر واضح نتائج سامنے آنے کے بعد امریکہ اور دوسرے ممالک نے وبا کے آغاز کے حوالے سے مزید گہرائی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب غیر جانب دار سائنس دان زیادہ شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔  

مئی میں جرنل ’سائنس‘ میں چھپنے والے ایک خط میں اعلیٰ امریکی یونیورسٹیوں کے ری سرچرز نے لکھا کہ ’جب تک ہمارے پاس مکمل معلومات نہیں آتیں ہمیں دونوں یعنی قدرتی طور پر اور لیب سے پھیلنے کے مفروضوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔‘

         

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ