’معید بھارت سے تعلقات کو جیو اکنامکس کی عینک سے دیکھتے ہیں‘

مبصرین کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ معید یوسف پاکستان کے کشمیر سے متعلق تاریخی موقف پر سمجھوتہ کیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر بنائیں گے؟

پاکستان تحریک انصاف حکومت کا حصہ بننے سے پہلے معید یوسف  امریکی تھینک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس پیس انسٹیٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھے(اے ایف پی)  

پاکستان میں قومی سلامتی کے مشیر (نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر یا این ایس اے) کے عہدے پر ساٹھ کی دہائی سے بالعموم فوجی جرنیلوں یا ریٹائرڈ سرکاری افسران کی اجارہ داری رہی ہے۔

تاہم پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک استاد اور دانش ور کو یہ عہدہ سونپا ہے۔ وہ غالباً اس عہدے پر ذمہ داریاں نبھانے والے تمام عہدے داروں سے کم عمر بھی ہیں۔ 

وزیر اعظم عمران خان نے دسمبر 2019 سے اپنے معاون خصوصی برائے نیشنل سکیورٹی اینڈ سٹریٹیجیک پالیسی پلاننگ معید یوسف کو 18 مئی کو ترقی دیتے ہوئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا۔ 

وزیر اعظم عمران خان 2018 میں عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل (ر) احسان الحق کو، جو آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، یہ اہم ذمہ داری تقویض کرنا چاہتے تھے، تاہم بعض حلقوں کی مبینہ مخالفت کے باعث انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ 

سیاسی و دفاعی تجزیہ کار اور قائد اعظم یونیورسٹی میں سابق استاد پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں معید یوسف کی تعیناتی کی بڑی وجہ ان کا دانش ورانہ اثر و رسوخ (انٹیلیکچول انفلوئنس) ہے، جس نے انہیں پاکستان کے سول اور فوجی اداروں کے لیے قابل قبول بنا دیا۔  

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’معید یوسف بہت واضح ہیں کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے ہونا چاہییں، امریکہ کو کیسے ڈیل کرنا ہے اور افغانستان کی صورت حال کیوں کر ہمارے حق میں ہو سکتی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان نے محسوس کیا کہ معید یوسف ہی اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص ہیں اور اسی لیے کسی غیر سرکاری ملازم کو پہلی مرتبہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔ 

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے معید یوسف کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس عہدے کے اہل ہیں کیونکہ انہیں متعلقہ معاملات کی بہتر تفہیم ہے۔ 

ماضی میں تین سویلینز نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ ان میں طارق عزیز، سرتاج عزیز اور اقبال اخوند شامل ہیں۔ تاہم معید یوسف پہلے این ایس اے ہیں جو کبھی سرکاری ملازمت میں نہیں رہے۔ 

بھارت کے ساتھ تعلقات میں کردار 

خیال کیا جاتا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ معید یوسف کو پاکستان کے ایوان اقتدار میں پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے متعلق خواہش کو عملی جامع پہنانے کے لیے اس اہم عہدے پر تعینات کیا گیا۔ 

تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجیک سٹڈیز اسلام آباد سے منسلک محقق محمد علی بیگ کا کہنا تھا کہ معید یوسف بھارت کے ساتھ تعلقات کو جغرافیائی سیاست کے تناظر کی بجائے جیو اکنامکس کی عینک سے دیکھتے ہیں اور یہی موجودہ دور میں پاکستانی ریاست کی پالیسی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ڈائیلاگ میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داود نے اپنی تقریر میں بالکل اسی طرح کا تاثر دیا تھا۔ 

محمد علی بیگ نے مزید کہا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ معید یوسف کو15-2014 میں امریکہ میں ایک تقریب میں سنا تھا اور ان کے پاکستان بھارت تعلقات سے متعلق رائے میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ 

پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ معید یوسف پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر دونوں پڑوسیوں کے درمیان بات چیت کی کوششوں میں رکاوٹ نہ بنے۔  

بھارتی اخبارات و رسائل میں حال ہی میں چھپنے والے مواد سے تاثر ملتا ہے کہ پڑوسی ملک میں بھی معید یوسف کی تقرری کے پیچھے دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ رابطوں کو واحد مقصد سمجھا جا رہا ہے۔ 

بھارت کے آن لائن اخبار دی کوئنٹ میں چھپنے والے ایک مضمون میں ڈاکٹر تارا کارتھا لکھتی ہیں: ’نئے این ایس اے کا کام (بھارتی آئین کے) آرٹیکل 370 کے خاتمے پر اعتراضات کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا حل نکالنا ہے کہ پاکستان گلگت پاکستان کو ہڑپ کر سکے۔ اور یہ دنیا کا سب سے برا کام ہے۔‘ 

پروفیسر رفعت حسین نے کہا: دیکھنا ہو گا کہ معید یوسف پاکستان کے کشمیر سے متعلق تاریخی موقف پر سمجھوتہ کیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر بنائیں گے؟‘ 

انہوں نے کہا کہ سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرح اب کسی کے بھارت سے بس لے کر آنے کے امکانات موجود نہیں اور موجودہ بھارتی قیادت سے تو ایسی امید رکھی ہی نہیں جا سکتی۔ 

تاہم معید یوسف کی بحیثیت این ایس اے تقرری کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے محمد علی بیگ کا کہنا تھا: ’ان (معید یوسف) میں پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات کے تناظر میں چیزوں کو آگے لے جانے کی صلاحیت موجود ہے اور لگتا ہے وہ ایسا کر دکھائیں گے۔‘ 

امریکہ اور افغانستان 

پروفیسر رفعت حسین نے کہا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی حیثیت سے معید یوسف موثر کردار ادا نہیں کر پا رہے تھے اس لیے انہوں نے کسی ایسے عہدے کی خواہش کی جس پر وہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اور جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان میں امریکہ کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے بہتر شخص کی تلاش ہوئی اور قرعہ معید یوسف کے نام نکلا۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش اور طالبان طاقت پکڑ رہے ہیں جس کے پیش نظر امریکہ کو افغانستان کے پڑوس میں اڈوں کی ضرورت ہے اور واشنگٹن اس سلسلے میں پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔  

واضح رہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو ہوائی اڈوں کی سہولت کی فراہمی سے متعلق خبروں کی تردید کر چکا ہے۔ 

پروفیسر رفعت حسین نے کہا کہ معید یوسف سابق امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سٹیفن ہیڈلے کے ساتھ امریکہ کے پیس انسٹیٹیوٹ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور یہ ان کا پلس پوائنٹ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں معید یوسف سے متعلق ایک نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور وہاں عام تاثر لیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ان کی بات سنی جائے گی۔ 

محمد علی بیگ نے ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ معید یوسف کے امریکہ میں کافی زیادہ ذاتی تعلقات ہیں جو وہ بحیثیت نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر پاکستان کے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ’بعض اوقات ذاتی تعلقات پیشہ ورانہ تعلقات سے بہتر ثابت ہوتے ہیں اور معید یوسف کو امریکہ کے ساتھ ڈیل کرنے میں یہ ایج ضرور حاصل رہے گا۔‘ 

امریکہ سے پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی 

تحریک انصاف حکومت کا حصہ بننے سے پہلے معید یوسف امن کے لیے کام کرنے والے امریکی تھینک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس پیس انسٹیٹیوٹ (یو ایس پی آئی) کے ساتھ بحیثیت ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ (برائے ایشیا) منسلک تھے۔  

تارا کارتھا اپنے مضمون میں لکھتی ہیں: ’ان کے یو ایس آئی پی میں جنوبی ایشیا ڈویژن کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پاکستان پر تنقید کرنے والے مضامین غائب ہو گئے، اور اس کی بجائے کشمیر اور بھارت پر منفی تشہیر کا سیلاب آنے لگا۔‘ 

تنازع 

پاکستان مخالف معروف امریکی سکالر کرسٹین فیئر نے تو پیس انسٹیٹیوٹ کے خلاف باقاعدہ شکایت کر دی کہ معید یوسف کی وجہ سے ادارہ بھارت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، تاہم یو ایس پی آئی نے اس کی سختی سے تردید کی۔ 

پروفیسر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ معید یوسف نے پیس انسٹیٹیوٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے پاکستان کے موقف کو دنیا پر اجاگر کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان