سرکاری پیسے سٹیٹ بینک میں رکھنے کا حکم، خفیہ فنڈز کا کیا بنے گا؟

حکومت کی ہدایت پر کمرشل بینکوں سے اربوں روپے کی سرکاری رقوم کی مرکزی بینک کو منتقلی جاری ہے لیکن خفیہ فنڈز کو سٹیٹ بینک میں منتقل کرنے پر تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اگست 2020 میں کمرشل بینکوں میں صرف وفاقی محکموں کے ایک ہزار 400 ارب روپے  موجود  ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے گذشتہ برس کمرشل بینکوں میں موجود وفاقی حکومت کے تمام اکاؤنٹس بند کرنے کا سرکلر جاری کیا گیا تھا، جس کا مقصد تمام سرکاری محکموں کے پیسے کو مرکزی بینک کے سنگل ٹریژری اکاؤنٹ میں رکھنا تھا۔

اب مرکزی بینک کی جانب سے رواں سال اپریل میں جاری کیے گئے ایک اور نوٹیفیکیشن میں تمام کمرشل بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام سرکاری محکموں کے اکاؤنٹس اور ان میں موجود رقم نئے مالی سال سے پہلے پہلے سٹیٹ بینک میں جمع کروا دیں۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمے کا نجی بینک میں نیا اکاؤنٹ نہیں کھلے گا اور پرانے اکاؤنٹ فوری بند کیے جائیں گے۔

نیشنل بینک کے ایک سینیئر عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بینک میں موجود سول آرمڈ فورسز کی رقوم مرکزی بینک کے حوالے نہ کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک سول آرمڈ فورسز کی رقوم اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند اور اس معاملے پر سٹیٹ بینک سے استثنیٰ چاہتا ہے، تاہم ابھی تک سٹیٹ بینک نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔

ادھر کمرشل بینکوں سے اربوں روپے کی سرکاری رقوم مرکزی بینک کو منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم بہت سے اداروں کو اس پر تخفظات بھی ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق اس سرکلر کے تحت اب خفیہ فنڈز بھی مرکزی بینک کا حصہ بن جائیں گے، جس کی ٹرانزیکشن براستہ خزانہ ڈویژن ہو گی۔

انہوں نے کہا: ’یہ بہت مشکل ہے۔ شاید اس پر بھی حکومت سے استثنیٰ لے لیا جائے کیونکہ سیکرٹ فنڈ کی ہر ٹرانزیکشن اعلانیہ نہیں ہوسکتی۔‘

اس ضمن میں عام آدمی کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کا انڈپینڈنٹ اردو نے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

نئی مانیٹری پالیسی کیا ہے؟

سٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق اس نئی پالیسی کے تحت وفاقی اداروں کے بعد تمام صوبائی محکموں کو بھی اپنے اکاؤنٹس سٹیٹ بینک منتقل کرنے کا پابند کیا جائے گا۔

فنانس ڈویژن نے اس حوالے سے ضابطہ کار بھی جاری کیا ہے جو سنگل ٹریژری رول 2020 کے تحت ہے۔ گذشتہ برس بجٹ کے وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ سرکاری محکمے عوام کے لیے استعمال ہونے والی کثیر رقم کمرشل بینکوں میں جمع کیے ہوئے ہیں جس کو بنیادی طور پر ایک مرکزی اکاؤنٹ میں ہونا چاہیے۔

اس کے بعد سنگل ٹریژری رول 2020 جاری کیا گیا، جس پر عمل درآمد مالی سال 22-2021 سے پہلے کرنا ہے۔

ایک مرکزی اکاؤنٹ کام کیسے کرے گا؟

سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود دستاویز کے مطابق سرکاری محکمے اپنی رقم کے حصول کے لیے وزارت خزانہ کے سیکریٹری ڈائریکٹ ڈیبٹ سے رجوع کریں گے، جن کی ایڈوائس اور دو مجاز افسران کے دستخطوں والا لیٹر سٹیٹ بینک میں جمع کروا کر رقم نکلوا لی جائے گی۔

وزارت خزانہ سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر اس امر کو یقینی بنائے گی کہ اس سارے عمل میں کوئی تاخیر نہ ہو۔

سٹیٹ بینک کی تمام سرکاری کھاتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی وجہ؟

میزان بینک سے وابستہ بینکر سہیل خان نے بتایا کہ یہ حکومت کی معاشی حکمت عملی ہے اور اس کے پیچھے وجہ منافع نہیں بلکہ حکومتی رقوم کی مینجمنٹ کو بہتر کرنا، پیسے کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور اس سارے عمل کو شفاف رکھنا مقصد ہو سکتا ہے۔

سٹیٹ بینک حکام کے مطابق سنگل ٹریژری اکاؤنٹ کا بنیادی مقصد رقم کو باآسانی اور بروقت استعمال کرنا ہے۔ مالی آپریشن ‏کو یقینی بنانے، پرسنل لیجر اکاؤنٹ، سپیل ڈرائنگ اکاؤنٹس اور ریوالونگ فنڈ اکاؤنٹس کو بند ‏کردیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بہرحال سنگل ٹریژری اکاؤنٹ کا مقصد منافع نہیں بلکہ اس کی معاشی وجوہات ہیں۔

‏حکومتی ذرائع کے مطابق اس اقدام سے مرکزی حکومتی بینک اور ملکی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا، سرکاری پیسے کو ٹریک کرنے میں آسانی ہوگی اور اس میں کوئی قابلِ ذکر کمی یا بیشی حکومتی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔

حکومتی ذرائع نے مزید کہا کہ وہ تمام سرکاری محکمے جن کے کمرشل بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس ہیں اب وہ پیسہ سرکاری بینک میں جمع کروانا پڑے گا، یہ پالیسی سرکاری اداروں میں پیسے کے غبن اور کرپشن کی روک تھام کے لیے انقلابی قدم ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق کمرشل بینکوں میں اگست 2020 میں صرف وفاقی محکموں کے ایک ہزار 400 ارب روپے موجود ہیں، جو بینکنگ ڈپازٹ کا نو فیصد بنتا ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کے محکموں کی رقوم اس کے علاوہ ہیں۔

لیکن اس کا کمرشل بینکوں پر کیا اثر ہوگا؟

سہیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت ایسے ہی اپنے پیسے نہیں دے دیتی بلکہ بولی (bidding) کے عمل سے مختلف کمرشل بینکوں کو یہ پیسے دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بینک کے پاس جو سرکاری محکموں کے پیسے پڑے ہیں یہ نارمل ڈپازٹ ہیں اور چونکہ یہ مختلف بینکوں میں منقسم ہیں، اس لیے ہر ایک کے حصے میں تھوڑا شیئر ہی آتا ہے۔

سہیل خان نے کہا کہ بینک کے پاس جو ٹوٹل ڈپازٹ ہوتا ہے، اس میں حکومتی حصہ زیادہ بڑا نہیں ہوتا بلکہ دس، 20 یا 50 ارب روپے کسی کے پاس موجود بھی ہیں تو ٹوٹل ڈپازٹ کی بہت کم شرح ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس رقم کے نکل جانے سے بینک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی ٹرانزیکشن کی موومنٹ ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی بینک کو اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہو گا اور نہ ہی فرق پڑے گا۔

دوسری جانب ایک نجی بینک کے ساتھ کام والے محمد علی (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ چند دہائیوں میں پرائیویٹ/ کمرشل بینکنگ کا شعبہ ملک میں ایک وسیع کاروبار کے طور پر ابھرا ہے، جو سالانہ اندرونِ اور بیرونِ ملک اربوں روپے کی سرکولیشن اور اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔

اس ضمن میں کمرشل بینک ایک بڑے فریق ہیں جن کی ملک گیر برانچوں میں سرکاری محکموں کے اربوں روپے جمع ہیں اور اس پیسے کی مدد سے وسیع پیمانے پر کاروبار ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں سرکاری پیسے کو بینکوں سے نکال لینے کی وجہ سے پرائیویٹ بینکنگ کو نہ صرف ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ خود حکومت بھی اس فائدے سے محروم ہو جائے گی، جو یہ بینک ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں جبکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرائیویٹ بینک اس پالیسی کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کی صورت میں لامحالہ ڈاؤن سائزنگ کی طرف جائیں گے اور نتیجتاً ملک میں ہزاروں بینک ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے۔

لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری محکموں کو اپنی رقوم کمرشل بینکوں سے مرکزی بینک منتقل کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟

معاشی امور کے سینیئر صحافی اشرف ملخم نے بتایا کہ کچھ چھوٹے کمرشل بینک بھی ہیں جن میں اگر حکومتی محکموں کے پیسے ہوں گے اور اگر بینک فراڈ کرے یا دیوالیہ ہو جائے تو یہ رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ سرکاری محکموں کے پیسے مرکزی بینک میں ہونے سے فراڈ نہیں ہوسکے گا۔

بقول اشرف ملخم: ’مختلف سرکاری محکمے جیسے این ایچ اے، این ڈی ایم اے، او جی ڈی سی ایل یا سوئی گیس کمپنیاں سٹاک مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کرلیتے تھے یا اکاؤنٹ فکس کروا کے ذاتی منافع کماتے ہیں، اس سے حکومت کی اصل رقم بھی موجود رہتی ہے اور متعلقہ شخصیات مبینہ طور پر منافع بھی کما لیتی ہیں لیکن نئے اقدام سے اس پریکٹس کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ کچھ کمرشل بینک حکومت کے ساتھ پرائیویسی پالیسی کی وجہ سے ڈیٹا شیئر نہیں کرتے لیکن اب حکومت کی ان معاملات پر براہ راست نظر ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نجی بینک آڈٹ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے سرکاری محکموں کے ان نجی بینکوں میں پیسے کا بھی آڈٹ نہیں ہوتا لیکن اب تمام فنڈز سٹیٹ بینک کے ایک اکاؤنٹ میں ہونے کی وجہ باآسانی آڈٹ ہوسکے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت