دو بھائی جن کے ہاتھوں میں کتاب کی بجائے ڈھول ہے

12 سالہ ندیم کہتے ہیں کہ ’میں چاہتا ہوں کہ میں بھی دیگر بچوں کی طرح تعلیم حاصل کروں لیکن غربت کی وجہ سے ایسا دکھائی نہیں دیتا۔‘

تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے لیکن غربت رکاوٹ ہے (روفان خان)

خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع بنوں کے دو ایسے سگے بھائی ایسے ہیں جن سے ملاقات ان کی گلی، گھر یا حجرے میں نہیں بلکہ صبح کے وقت عام لوگوں کی طرح ضلع بنوں کی مشہور چائے بازار میں ایک سڑک کے کنارے پر ہی ہو سکتی ہے۔

ان میں سے ایک کا نام ندیم ہے جس کی عمر 12 سال، جبکہ دوسرے کا نام حضرت ہے جس کی عمر 13 سال ہے۔ انہیں پہچاننے میں کوئی مشکل یا دقت نہیں کا سامنا نہیں ہوتا، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچے عام بچوں کی طرح کھیلتے نہیں اور نہ ہی پڑھتے ہیں بلکہ ان کی پہچان ان کے ہاتھوں میں یا کندھے پر پڑا ڈھول ہوتا ہے۔

12 سالہ ندیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے لیکن غربت میرا شوق پورا کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بھی دیگر بچوں کی طرح تعلیم حاصل کروں لیکن غربت کی وجہ سے ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ میرا والد بھی یہی کام کررہا ہے والد کے بقول میں سات سال کا تھا جب اس نے مجھے یاتھ میں ڈھول تھما دیا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ ’میں بڑا پروگرام تو نہیں کر سکتا البتہ گھروں میں خواتین کی تقریبات میں والد مجھے وہاں بھجواتے ہیں، جس سے مجھے دن کی محنت کے بعد ڈیڑھ ہزار روپے ملتے ہیں، کبھی کبھار اس سے زیادہ بھی ملتے ہیں اور کم بھی ہو جاتے ہیں۔‘

ندیم و حضرت کے والد ڈھول فنکار اقلیم خان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’خوشی کی تقریبات میں ڈھول بجانا ہماری پرانی روایت کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ ہمارے آبا و اجداد سے چلا آ رہا ہے لیکن اس جدید دور میں ڈھول کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے جس کا برا اثر ہمارے ڈھول بجانے والوں پر پڑ رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اُنہوں نے کہا کہ ’ڈھول کی روایت اس لیے ختم ہوتی جا رہی ہے کہ چھوٹے بڑے ڈی جے آ گئے ہیں جس کی وجہ سے اب لوگ ڈھول کو نہیں بلکہ ڈی جے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں حالانکہ خرچے کا فرق نہیں ہے۔‘

اقلیم خان کے مطابق ’ہمارے ڈھول بجانے میں مزے کی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی کے ساتھ خوشی کی تقریب میں جاتے ہیں تو راستے جب مسجد آتی ہے یا قبرستان آتی ہے تو ہم کسی کے کہنے سے قبل ڈھول بجانا بند کرتے ہیں لیکن ڈی جے میں یہ نہیں کیونکہ ڈی جے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں ان کو یہ احساس نہیں ہوتا۔ پہلے ڈھول بجانے والوں کی بہت عزت ہوتی تھی لیکن ڈی جے کی وجہ سے عزت اب نہیں رہی۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’میرے دو بچے ہیں، ان کو بھی ہم نے مجبورا ڈھول بجانا سکھا دیا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ میں ان کو اپنے فن کی طرف راغب کروں لیکن کمرتوڑ مہنگائی کی وجہ سےمیں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اگر میرا پروگرام نہیں ہوتا تو ان کا پروگرام تو ہوتا ہے پھر گھر کا چولہا ان سے چلتا ہے۔‘

ڈی جے کا کاروبار کرنے والا ہارون خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سے بھی ڈی جے آئے ہیں اسی دن سے ڈھول کی روایت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ پہلے ہر کسی کو خوشی کی تقریب میں ڈھول بجانے کا شوق تھا اب وہ ڈی جے کا استعمال کرتے ہیں۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’ڈی جے اور ڈھول کے کرائے میں اتنا فرق نہیں بلکہ اب وقت بدلنے میں پرانی ثقافت یعنی ڈھول کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اگر گلوکاروں کی طرح ڈھول بجانے والوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا جائے تو ان کی معاشی مشکلات میں کمی آ جائے گی اگر ایسا نہ ہوا توا ن کی مشکلات اور بھی بڑھیں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس