سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سے ٹیکس چوری کرنےوالے کون؟

کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جان بچانے والی تقریباً 100 ادویات کی قیمتوں میں تو 260 فیصد تک اضافہ ہوا ہے لیکن جان لیوا سگریٹ پر ایک روپے بھی ٹیکس نہیں لگایا؟

پاکستان میں کرونا سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے روزانہ سگریٹ سے مر رہے ہیں (پکسا بے)

کل دنیا بھر میں انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے یاد آیا کہ ان دنوں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا پر ایک مہم چل رہی ہے جس کا آغاز 77 ارب روپے کی ٹیکس چوری سے ہوتا ہے اور آخر میں ’بہتر پاکستان‘ لکھا ہوا آتا ہے۔

اس مہم سے متاثر ہونا بنتا ہے کیونکہ پاکستان کو ایک تو 77 ارب کی سالانہ ضرورت ہے۔ دوسرا اس چوری کے پیچھے کون ہے یہ جاننا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی حکومت یا حکومتی اداروں جیسے ایف بی آر وغیرہ کا کام ہے۔

اس ٹیکس چوری کو سمجھنے کے لیے دیکھنا ہو گا کہ اس ٹیکس چوری سے فائدہ کون اٹھاتا ہے؟

جب بھی کوئی فیکٹری، کوئی مِل یا کوئی مافیا زیادہ منافع کمانے کا خواہاں ہو اور اس پر ٹیکس ادا نہ کرنا چاہے تو وہ اپنی مصنوعات کو حکومت کی آنکھ سے بچا کر مارکیٹ میں لاتا ہے اور حکومت کو ٹیکس ادا نہ کر کے وہ ٹیکس کا پیسہ بچا لیتا ہے جس سے ان کو خاطرہ خواہ منافع ملتا ہے۔

سگریٹ کی غیر قانونی تجارت تو واضح بات ہے کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں ہی کرتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں اربوں روپے حکومت سے بچا کر اپنے منافع کو بڑھا سکیں۔

پاکستان میں دو قسم کی کمپنیاں سگریٹ بناتی ہیں۔ ایک برٹش ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کا مارکیٹ شیئر 95 فیصد ہے اور دوسرا لوکل کمپنیاں جن کا مارکیٹ میں حصہ پانچ فیصد ہے۔ طریقہ واردات دیکھئے کہ 95 فیصد مارکیٹ والی کمپنیاں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کا سارا ملبہ 5 فیصد والی لوکل کمپنیوں پر ڈال دیتی ہیں اور حکومت کو کہتی ہیں کہ اگر سگریٹ کی قیمت بڑھائی گئی تو یہ سگریٹ کی اسمگلنگ میں اضافہ ہو گا۔

یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت سے متعلق اپنی تحقیقات مارکیٹ میں لاتی ہیں۔ حال ہی میں دیکھ لیجیے کہ سگریٹ کمپنیوں کا فروری 2021 میں دعویٰ تھا کہ غیرقانونی سگریٹ کی تجارت کا حجم 44 ارب ہے جو اپریل میں 77 ارب تک پہنچ گیا۔ یعنی صرف دو ماہ کے کم عرصے میں غیر قانونی تجارت نے اتنی بڑی چھلانگ لگائی اور حکومتی ٹیم اور ایف بی آر منہ دیکھتے رہ گئے؟ یہ تو ان اداروں پر بھی سوال اٹھاتا ہے؟ ویسے یہ اعداد و شمار عالمی بنک رد کر چکا ہے۔ دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ خود کو مظلوم بتانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ صرف خود سمگلنگ میں ملوث ہیں بلکہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت میں ملوث ہونے پر مقدمات میں اربوں ڈالر جرمانے بھی ادا کر چکی ہیں۔

یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں اپنے فائدہ کے لیے حکومتی اداروں کے حکام سے بہترین تعلقات بنائے رکھتی ہیں۔ انہی تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکس کا نظام ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔

پاکستان میں سال 2019 تک تین قسم کے ٹیکس نظام لاگو تھے۔ فرسٹ ٹیئر میں سستے سگریٹ جن پر کم ٹیکس رکھا گیا۔ سیکنڈ ٹیئر میں مہنگے سگریٹ، جن پر ٹیکس زیادہ تھا۔ پھر لایا گیا خصوصی تھرڈ ٹیئر جس میں سگریٹ کے وہ برانڈ رکھے گئے جو مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہوتے تھے۔

اس ٹیئر سے ٹیکس میں کمی لائی گئی لیکن شاید حکومت کی آنکھ ذرا جلد کھل گئی۔ 2017 میں جب تھرڈ ٹیئر ٹیکس سسٹم نافذ کیا گیا تو حکومت کو ایک ہی سال میں 30 ارب روپے ٹیکس کی مد میں نقصان اٹھانا پڑا۔ اتنے بڑے خسارے پر اس کے وقت کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے اس کی انکوائری کا حکم دے دیا۔

نیب نے بھی انکوائری شروع کر دی لیکن نتیجہ صفر رہا۔ 2019 میں اس ٹیکس چوری کے خلاف سوشل میڈیا پر واویلا ہوا تو حکومت نے تھرڈ ٹیئر ختم کر دیا، لیکن اب دوبارہ سگریٹ کمپنیاں تھرڈ ٹیئر کے نفاذ کے لیے دوبارہ جتن کر رہی ہیں۔ دیکھتے ہیں اس بار حکومت بیوقوف بنتی ہے یا نہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں دنیا بھر کے مقابلے میں سستے سگریٹ دستیاب ہیں۔ اوسط سگریٹ کے پیکٹ کی قیمت صرف 38 روپے ہے اور سگریٹ پر ٹیکس 43 فیصد ہے، جبکہ عالمی ادارہ صحت کی تجویز ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ کی قیمت کا 70 فیصد ٹیکس لاگو ہونا چاہیے۔

یہ ٹیکس نہ لاگو ہونے سے پاکستان میں سگریٹ نوشی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین کروڑ پاکستانی سگریٹ نوشی کرتے ہیں جبکہ اس سے سالانہ اموات ایک لاکھ 60 ہزار ہیں، یعنی روزانہ تقریباً 300 کے قریب۔ اتنی اموات تو کرونا کی وجہ سے بھی نہیں ہو رہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سگریٹ نوشی سے ہونے والے معاشی نقصانات 615 ارب سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ٹوبیکو کمپناں سالانہ صرف 100 ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

پائیڈ کی تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر سگریٹ کی قیمت 50 فیصد بڑھا دی جائے تو سگریٹ نوشی کو 50 فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔ پائیڈ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان اگر انٹرنیشنل سگریٹ برانڈز کی قیمت بڑھائے تو خاص طور پر نوعمر اور نوجوان سستے برانڈز کی جانب راغب نہیں ہوں گے بلکہ سگریٹ نوشی یا تو کم کر دیں گے یا پھر ترک ہی کر دیں گے۔

عالمی ادارہ صحت کیمطابق سگریٹ نوشی کے باعث ہونے والے معاشی اور جانی نقصانات کو کم کرنے کا موثر ترین طریقہ سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

پاکستان میں جان بچانے والی تقریباً 100 ادویات کی قیمتوں میں تو 260 فیصد تک اضافہ ہوا ہے لیکن جان لیوا سگریٹ پر ایک روپے بھی ٹیکس نہیں لگایا گیا؟ اس سوال کا جواب وزیراعظم عمران خان یا پھر ایف بی آر حکام ہی دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں بجٹ ہر سال جون میں پیش کیا جاتا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ اس بار کے بجٹ میں ملٹی نیشنل ٹوبیکو کمپنیوں کو آرے ہاتھوں لیا جائے گا اور سگریٹ پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ بہتر پاکستان کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان اس مافیا کو لگام دینے کے اقدامات شروع کریں اور سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد کریں، تاکہ اس سے ہونے والے معاشی و جانی نقصان بچا جا سکے اور نوجوانوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت