’والدہ نے گردن پر تِل کے نشان سے پہچانا‘

عباس (فرضی نام) واپس آنے کے ایک سال بعد بظاہر آزاد تو ہے لیکن نفسیاتی طور پر مسائل کے قید خانہ میں جکڑا ہوا۔

اے ایف پی فائل فوٹو

جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد جب کچھ سالوں بعد گھر واپس آتے ہیں تو ان کی آزمائش ختم نہیں ہوتی بلکہ سماجی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہ جبری طور پر گمشدہ رہنے والے ایک شخص کی داستان ہے، جو گھر واپس آنے کے ایک سال بعد بظاہر آزاد تو ہے لیکن نفسیاتی طور پر مسائل کے قید خانے میں جکڑا ہوا۔ عباس (فرضی نام، جگہ کا نام بھی ظاہر نہیں کیا جا رہا) نے بتایا کہ وہ دو سال تک جبری طور پر گمشدہ رہے۔

’گمشدگی کے بعد جب واپس آیا تو دوسرے لاپتہ افراد کی طرح میرا بھی سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ زندگی کے دو سال تو گزر چکے تھے لیکن مجھے زندگی نئے سرے سے شروع کرنی تھی۔‘

جب میں گرفتار کیا گیا تو گھر والوں کو محلے اور شہر والوں کے الزام سننے کو ملتے کہ آپ کے بیٹے کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے تو ضرور کچھ خطرناک کام کیا ہوگا جبکہ مجھے صرف میرے ایکٹوازم کی وجہ سے شک کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا۔

گم کرنے والوں نے رہائی کے وقت معذرت بھی کہ آپ کا کوئی جرم نہیں تھا لہذا آپ جاسکتے ہیں۔ لیکن اب کہاں جائیں؟

معاشرے میں ہر فرد اس بنیاد پر ہم سے دور رہتا ہے کہ یہ شخص مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ ہم اس معاشرے میں وجود تو رکھتے ہیں لیکن غیرمتعلقہ فرد کی طرح۔

جبری گمشدگی ختم ہوئے ایک سال ختم ہوگیا ہے لیکن میں اب بھی سماجی پابندیوں کا شکار ہوں۔ گرفتاری سے قبل جوکاروبار شروع کیا تھا وہ ختم ہوگیا۔

اس ایک سال کے دوران میں چھ جگہوں پر ملازمت کرچکا ہوں لیکن ہر جگہ ایجنسیز کے لوگ تفتیش کے نام پر مجھے ملازمت کی جگہ پر مشکوک بنا دیتے ہیں اور ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

اب ایک معمولی سے ہوٹل پر ملازمت کرتا ہوں لیکن کب تک، یہ معلوم نہیں۔ اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں لیکن سرمایہ نہیں اور اگر کوئی مہربان کچھ رقم دے تو خفیہ ادارے نگاہ رکھتے ہیں کہ کس مقصد کے لیے رقم لی گئی ہے۔

دورانِ حراست کسی بھی قیدی کے بال کاٹنے نہیں دیے جاتے۔ جب میں دو سال بعد گھر والوں کے سامنے آیا تو میرے لمبے بال، دھنسی ہوئی آنکھوں اور لمبی داڑی کی وجہ سے وہ مجھے پہچانے سے انکاری تھے۔

والدہ نے میری گردن پر تِل تلاش کرنا شروع کر دیا۔ تل ملنے پر میرے ماتھے پر بوسہ دے کر کہا ہاں تم ہی میرے بیٹے ہو۔

اس ملک میں ہزاروں افراد کو قتل کرنے میں ملوث گروہ کے رکن احسان اللہ، بہت سی کالعدم تنظیموں کے افراد اور جہادیوں کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آئین اور قانون کے خلاف ہزاروں لوگوں کو قتل کیا لیکن دوسری طرف ہمیں جبری طور پر گم کرکے ہمارا سب کچھ ختم کر دیا گیا۔

اب ہمارا جینا بھی دشوار ہوچکا ہے۔ جبری طور پر گمشدہ افراد کو قومی دھارے میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ ہمیں بھی ملازمتیں دی جانی چاہیے، ہم بھی اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی