ذیابیطس کا علاج: کتے پر تجربے سے انسولین کی تیاری تک

27 جولائی 1921 کو انسولین کی دریافت سے پہلے ذیابیطس ایک مہلک بیماری تھی، یہ جسے ہو جاتی وہ فقط چند برسوں کا مہمان ثابت ہوتا۔

طب کی دنیا میں انسولین کے انقلاب کا سہرا بالعموم ایک شخص فریڈریک بینٹنگ کے سر باندھا جاتا ہے جو ذیابیطس کا علاج  تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے (اے ایف پی فائل)

27 جولائی 1921 کو انسولین کی دریافت سے پہلے ذیابیطس ایک مہلک بیماری تھی۔

غذا کے جزو بدن بننے کے عمل میں خرابی پیدا کرنی والی یہ بیماری آج سے سو سال پہلے جسے ہو جاتی وہ بالعموم دنیا میں فقط چند برسوں کا مہمان ثابت ہوتا۔ معالجین کے پاس انسولین نامی ہارمون کی کمی کے سبب اپنے ذیابیطس کے مریضوں میں خطرناک حد تک بڑھی ہوئی بلڈ شوگر کا  کوئی حل نہیں تھا۔ تاہم انسولین کی ایجاد کی بدولت آج تقریباً 16 لاکھ امریکی ٹائپ ون ذیابیطس کے ساتھ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔

طب کی دنیا میں اس انقلاب کا سہرا بالعموم ایک شخص فریڈریک بینٹنگ کے سر باندھا جاتا ہے جو ذیابیطس کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ذیابیطس کے قابل اعتماد علاج تک رسائی میں دو سائنس دانوں آسکر منکووسکی اور  سورین سوارینسن کی تحقیق کا بہت عمل دخل ہے جو اس سے پہلے بظاہر غیر متعلقہ موضوعات پر تحقیق کر چکے تھے۔ 

میں ایک بائیو میڈیکل انجینئر ہوں اور میں ذیابیطس کے علاج کی تاریخ پر ایک مضمون پڑھاتا ہوں۔ میں اپنے طلبہ کے سامنے طبی علاج کی ترقی میں غیر متعلقہ بنیادی تحقیق کی اہمیت پر بہت زور دیتا ہوں۔ انسولین کی کہانی اس نقطے کی وضاحت کرتی ہے کہ طبی دریافتیں بنیادی سائنس پر اپنی ابتدائی اساس رکھتی ہیں اور پھر ایسے باصلاحیت انجینیئرز کی ضرورت ہوتی ہے جو لیب میں علاج دریافت کریں اور ضرورت مند لوگوں تک پہنچائیں۔ 

لبلبے پر ابتدائی تحقیق

ذیابیطس قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ اکثر و بیشتر ابتدائی علامات شدید پیاس اور پیشاب کی زیادتی تھی۔ چند ہفتوں میں مریض کا وزن گر جاتا۔ چند مہینوں میں مریض کومہ میں جا کر موت کے منہ میں پہنچ جاتا۔ صدیوں تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ذیباطیس کس وجہ سے ہوتی ہے۔

تاہم لبلبے سے لوگوں کی واقفیت صدیوں پر محیط تھی۔ یونانی ماہر تشریح الاعضا ہیرو فیلس نے پہلی بار اس کا ذکر تقریباً تین سو سال قبل مسیح میں کیا۔ جسمانی اعضا میں اس کی مخصوص جگہ پر موجودگی کے سبب لوگ قیاس کرتے کہ نظام انہضام میں اس کا بھی کردار ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ لبلبہ معدے کی طرح اہم عضو تھا یا اپینڈکس کی طرح اضافی۔ 

1889 میں یونیورسٹی آف سٹراس برگ سے وابستہ، تب یہ علاقہ جرمنی کا حصہ تھا، ماہر علم الامراض آسکر منکووسکی اپنے وقت کے قابل ترین جراحوں میں سے ایک تھے۔ ایک تحقیق کے سلسلے میں انہوں نے ایسا آپریشن کر دکھایا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا: ایک جانور کا لبلبہ پوری طرح نکالنے کے باوجود اسے زندہ رکھنا۔

جس کتے کا انہوں نے آپریشن کیا وہ زندہ رہا لیکن منکووسکی کو اس بات پر زیادہ حیرت تھی کہ اس میں وہ تمام علامات ظاہر ہونے لگیں جو ذیباطیس سے مخصوص سمجھی جاتی ہیں۔ منکووسکی اس نتیجے پر پہنچے کہ لبلبے کا خاتمہ ہی شوگر کا باعث بنا۔ آج اسے بیماری کا اینیمل ماڈل کہا جاتا ہے۔ ایک بار بیماری کا اینیمل ماڈل تشکیل پا جائے پھر محقیقین جانور پر مختلف طرح کے علاج کا تجربہ اس امید سے کر سکتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا دریافت کر لیں گے جو انسانوں میں بھی کارگر ثابت ہو گا۔ 

کیا آپ لبلبے کو پیس کر ذیباطیس میں مبتلا کسی جانور کو کھلا سکتے ہیں تاکہ وہ ٹھیک ہو جائے یا ذیابیطس کی شدت میں کمی آ جائے؟ نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ مروجہ زبان میں اس مسئلے کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ لبلبے کے ذمے دو فعل سر انجام دینا ہے: نظام انہضام کے لیے انزائم پیدا کرنا اور انسولین بنانا۔ ایک ساتھ مل کر ڈائجیسٹو انزائم نے انسولین کا خاتمہ کیا۔

انسولین کو الگ کرنا

1920 میں کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن کے ڈاکٹر فریڈریک بینٹنگ کو ایک خیال سوجھا۔ انہوں نے سوچا کہ میں جانور کے نظام انہضام اور لبلبے کی نالیاں آپریشن کے ذریعے آپس میں جوڑ سکتا ہوں۔ کچھ ہفتوں کے انتظار کے بعد جب لبلبے کا ڈائجیسٹو انزائم پیدا کرنے والا حصہ سوکھ جائے تو پورے لبلبے کو ہی کاٹ کر الگ کر لیا جائے۔ ان کے خیال میں ان کمزور بوسیدہ لبلبوں میں انسولین تو ہو گی لیکن نقصان دہ انزائم کے اجزا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

27 جولائی 1921 کو انہوں نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی لیبارٹری آف جے جے آر میکلیوڈ میں یہ تجربہ مکمل کیا۔ ٹورنٹو کے طالب علم چارلس بیسڑ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے بینٹنگ نے کتے کے کمزور لبلبے سے ایک ٹکڑا الگ کر لیا۔ پھر انہوں نے وہ ٹکڑا ایک ایسے کتے میں لگا دیا جس کا لبلبہ اس کے اندر سے نکالا جا چکا تھا اور اب وہ ذیابیطس کا شکار تھا۔ کتے میں ذیابیطس کی علامات غائب ہونا شروع ہو گئیں۔

اگرچہ بینٹنگ کا تجربہ کامیاب تھا لیکن انسولین کی تیاری یوں عملی طور پر ناممکن تھی۔ جے جے آر میکلیوڈ نے بائیو کیمسٹ جیمز کولپ کو ذمہ داری سونپی کہ انسولین تیار کرنے کا عملی طور پر ممکن طریقہ دریافت کریں۔

کولپ نے شراب کی تیاری کے خطوط پر ایک خاکہ تشکیل دیا۔ یہ تصور سادہ تھا: قصائی کی دکان پر ہر وقت موجود خنزیر کے تازہ لبلبے کو وہ پیس کر باریک کریں گے اور اسے پانی اور الکوحل کے محلول میں اچھی طرح ملا دیں گے۔ کولپ نے بتدریج محلول میں الکوحل کی مقدار بڑھانی شروع کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک وہ کثافت کی ایک خاص سطح پر نہیں پہنچتے انسولین محلول میں گھلتی رہے گی اور پھر اس کے بعد وہ محلول کا حصے بنے بغیر ویسے ہی الگ طور پر اپنا وجود برقرار رکھے گی۔ اب بوتل کی تہہ میں جمع ہونے والے کثیف اجزا کی شکل میں ان کے پاس خالص انسولین تھی۔ 

کولپ کے انسولین تیار کرنے کے طریقے نے بینٹنگ اور دیگر کو یونیورسٹی آف ٹورنٹو ہسپتال میں مریضوں کا علاج شروع کرنے کا موقع دیا۔ ابتدائی ٹیکے جنوری 1922 میں شروع ہوئے۔ چند ہفتوں میں ہی معجزاتی نتائج سامنے آ گئے۔ انسولین کے ٹیکے درجنوں قریب المرگ افراد کو معمول کی زندگی میں واپس لائے۔ اس لفظ کی شہرت کو پر لگ گئے۔ انسولین کی طلب میں اضافہ ہو گیا۔

لیکن جب کولپ انسولین کی بھاری مقدار کشید کرنے میں ناکام رہے تو بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی۔ وہ حیران و پریشان رہ گئے کہ ہو بہو پہلے والا طریقہ استعمال کرنے کے باوجود ویسی انسولین تیار نہیں کر پا رہے۔ جے جے آر میکلیوڈ نے بطور معاون اب تجارتی ادارے ایلائی للی اینڈ کمپنی کی خدمات حاصل کیں جس نے شفا بخش کیپسول تیار کرنے شروع کیے۔

ایلائی للی میں انسولین کشید کرنے کا مسئلہ 27 سالہ کیمیا دان جارج والڈن کے ہاتھوں پھر نہ سنبھل سکا۔ والڈن نے ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے کیمیادان سوریم سورینسن کا درجنوں سال قبل متعارف کردہ پیمانہ استعمال کرنے کی ٹھانی۔

سورینسن  1900 کی دہائی کے اوائل میں کارلس برگ لیبارٹری کے سربراہ تھے جو شراب ساز کمپنی نے شراب سازی کے عمل کو ترقی دینے کے لیے قائم کی تھی۔ انہوں نے پی ایچ (pH) کا نظریہ متعارف کروایا جو محلول کی ترشی (acidity) ماپنے کا پیمانہ ہے۔ شراب سازی کے دوران پی ایچ کی بلند سطح کا نتیجہ زیادہ تلخ شراب کی صورت میں نکلتا۔

جب والڈن نے لبلبے کے محلول کو پی ایچ سے ماپا تو انہیں معلوم ہوا کہ شراب سازی کی نسبت انسولین کی حل پذیری کے لیے ترشی کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے کولپ کی طرح انسولین تیار کرنے کا عمل شروع کیا لیکن اس کی بنیاد الکوحل مرکزیت کے بجائے پی ایچ پر رکھی۔ انسولین کی تیاری کو بڑی سطح پر لے جانے میں کولپ کو ناکامی شاید اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے محلول کا پی ایچ کنٹرول کرنے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔

اس آگاہی نے بڑے پیمانے پر انسولین کی تیاری کو ممکن بنایا۔

ایک انسانی بیماری کو شکست

مئی 1924 تک ذیابیطس مہلک بیماری نہ رہی تھی۔ معالج جوزف کالنگز نے دی نیویارک ٹائمز میں ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک ایک کر کے ناقابل تسخیر انسانی دشمن، بیماریاں جو اسے تباہ کرنے کے در پے ہیں، سائنس کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو رہی ہیں۔ خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک ذیابیطیس ہے جو ابھی تازہ ترین مغلوب ہوئی۔‘

آج ناقابل تسخیر انسانی دشمنوں میں کینسر، الزائمر اور شیزوفرینیا شامل ہیں۔ بنیادی تحقیق پر اساس رکھتے ہوئے ممکنہ طور پر ہر ایک کا علاج دریافت کر لیا جائے گا۔ 

-----------------

یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن میں چھپی تھی۔ مصنف جیمز پی بروڈی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں بائیو میڈیکل انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین