بلوچستان: ذیابیطس کے مریضوں کا ڈاکٹر سے زیادہ ’دم‘ پر انحصار 

 کوئٹہ کے سنڈیمن سول ہسپتال کے ذیابیطس کے ماہر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ ’بعض مریض یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قلات میں ایک جگہ پر کوئی پانی ہے، جس سے اس مرض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔‘

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں جس میں پہلی کو ’ٹائپ ون‘ دوسری کو ’ٹائپ ٹو‘کہا جاتا ہے  (فائل تصویر: اے ایف پی)

عبدالقادر نے پوری زندگی ملک سے باہر متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں گزاری اور بڑھاپے میں وہ کوئٹہ واپس آگئے۔ یہاں آکر انہیں معلوم ہوا کہ ان کو ذیابیطس یعنی شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ہے اور مرض کے پھیلاؤ کے باعث ان کے پیر کی دو انگلیوں کو کاٹ دیا گیا۔

عبدالقادر نے بتایا کہ انہوں نے ذیابیطس کو معمولی مرض سمجھ کر بروقت ٹیسٹ نہیں کروایا، جس کی سزا یہ ملی کہ اب وہ مشکل سے چل پھر سکتے ہیں۔

بلوچستان میں عبدالقادر اور ان جیسے دیگر لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کس خطرناک مرض کا شکار ہیں۔ جب وہ اتفاقاً ہسپتال میں معائنہ کرواتے ہیں تو تب انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہے۔

دنیا بھر کی طرح بلوچستان میں بھی ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجہ لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی ہے۔

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں جس میں پہلی کو ’ٹائپ ون‘ دوسری کو ’ٹائپ ٹو‘کہا جاتا ہے۔ پہلی قسم میں بچے اور وہ افراد شامل ہیں جن کے جسم میں انسولین نہیں بنتا ہے جبکہ دوسری اقسام میں شامل افراد وہ ہیں جن کی عمر 40 سال سے زائد ہو۔

بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال سنڈیمن سول ہسپتال میں روزانہ آنے والے ایسے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کو علم نہیں ہوتا کہ وہ اس خطرناک مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔

سنڈیمن سول ہسپتال کے ذیابیطس کے ماہر اسسٹنٹ پروفیسر کنسلٹنٹ فزیشن اینڈ انڈوکرونولوجسٹ ڈاکٹر سریش کمار سمجھتے ہیں کہ لاعلمی اور بروقت چیک اپ نہ کروانے سے ایسے مریضوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

 ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ پاکستان میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق اس مرض کا شکار زیادہ تر درمیانی عمر کے لوگ ہیں اور مردوں میں خواتین کے مقابلے میں اس مرض کی شرح زیادہ ہے۔

سریش کمار روزانہ ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس ایسے مریض بھی آتے ہیں، جنہوں نےہسپتال آنے سے پہلے حکیموں اور دم کروانے کر ترجیح دی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض مریض یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قلات میں ایک جگہ پر کوئی پانی ہے، جس سے اس مرض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو نہ صرف سمجھانا بلکہ ذیابیطس کے مرض سے ہونے والے مسائل سے آگاہی فراہم کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سریش کمار کے مطابق: ’بلوچستان میں جو لوگ دیہات سے شہروں کو منتقل ہو رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی طرز زندگی کو تبدیل کرنے کے باعث اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ  یہ ہےکہ وہ دیہات میں جسمانی مشقت اور واک زیادہ کرتے تھے، لیکن شہر میں آکر وہ گھروں میں بند ہوگئے ہیں۔‘

پاکستان میں ذیابیطس پر کی جانی والی تحقیق کے مطابق ہر پانچ یا چھ افراد میں سے ایک کو یہ مرض لاحق ہے جبکہ پوری دنیا میں 450 ملین سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔

ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ ’پاکستان ان ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے، جہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ خواتین میں ذیابیطس کے مرض سے بہت سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں، خصوصاً اگر وہ حاملہ ہوں تو اس دوران بچے کا سائز بڑھ جاتا ہے، جس سے ڈیلیوری کے دوران مسائل پیش آتے ہیں۔

ذیابیطس ایسا مرض ہے جو انسان کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے، اسے ’خاموش قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس سے کیسے بچا جائے؟

ماہرین طب کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے خاندان میں اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہے، تو ان کو زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور 40 سال کی عمر کے بعد باقاعدگی سے اس کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

ڈاکٹر سریش کا ماننا ہےکہ شہروں میں رہائش کے باعث لوگ دیہات کی طرح جسمانی مشقت کے کام نہیں کرتے، لہذا گاڑیوں کا استعمال، خوراک میں جنک فوڈ اور بیکری کی مصنوعات کے بے تحاشا استعمال سے اس مرض کے لگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ تجویز کرتے ہیں کہ اگر یہ مرض کسی کو لاحق بھی ہوجاتا ہے تو وہ اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرکے اس سے محفوظ رہ سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ورزش اور واک کو معمول بنایا جائے اور سبزیوں کا استعمال کیا جائے۔ 

میڈیسن کے شعبے میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر سید نعمان عطا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح بلوچستان میں بھی اس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کی عمر 30 سے 38 سال کے درمیان ہے۔   

ڈاکٹر نعمان نے بتایا کہ چونکہ کوئٹہ میں پورے بلوچستان سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں، جن میں سے اکثر لوگ پڑھےلکھے نہیں ہوتے اس لیے ان کو ذیابیطس اور اس کے مضمرات کے بارے میں بتانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

بلوچستان کے دیہات میں لوگ آج بھی بیماریوں کے علاج کے لیے حکیموں اور دم کروانے پر یقین کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نے بتایا کہ ایسے لوگوں کو ڈاکٹر سے زیادہ دم پر اعتقاد ہوتا ہے، اس لیے وہ علاج پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، جس سے صورت حال قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مرض کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ماہرین طب اور حکومت کو مل کر آگاہی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ لوگ بروقت علاج کروائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت