سی ڈی اے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن تنازع، عدالتی فیصلے کے اثرات؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو تحلیل کر کے تمام اختیارات اور اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن آف اسلام آبادکو منتقل کرنے کے حکم کو جہاں ایم سی آئی کے حکام ’درست‘ قرار دے رہے ہیں، وہیں سی ڈی اے حکام اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

22 مارچ 2020 کو اسلام آباد میں فیصل مسجد کا عمومی منظر (عامر قریشی / اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو تحلیل کر کے تمام اختیارات اور اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد (ایم سی آئی) کو منتقل کرنے کے حکم کو جہاں ایم سی آئی کے حکام ’درست‘ قرار دے رہے ہیں، وہیں سی ڈی اے حکام اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دو اداروں کے مابین یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرے گا؟ سی ڈی اے ختم ہونے سے شہر کے نظام پر کیا فرق پڑے گا؟ اور ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے سی ڈی اے اور ایم سی آئی کے قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔

سی ڈی اے کے 27 ہزار ملازمین ہیں، جو مختلف محکموں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کے حوالے سے سی ڈی اے کے سابق قانونی مشیر کاشف علی ملک نے بتایا کہ ’سی ڈی اے کے آرڈیننس میں درج ہے کہ اس کے ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ وفاق نے کرنا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’یہ بات واضح کر دوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے کو تحلیل نہیں کیا بلکہ وفاق کو ہدایت دی ہے کہ اس تحلیل کے عمل کو شروع کیا جائے۔ وفاق کہہ سکتا ہے کہ ابھی تو اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا تو سی ڈی اے کیسے تحلیل ہو سکتا ہے؟

’دوسری بات یہ ہے کہ یہ سنگل بینچ کا فیصلہ ہے، اس پر انٹرا کورٹ اپیل دائر ہو جائے گی۔ ڈویژنل بینچ اس فیصلے کو معطل کر سکتا ہے۔ اس فیصلے میں گنجائش موجود ہے، جس کی بنیاد پر اس کو معطل کروایا جا سکتا ہے، اس لیے سی ڈی اے اپنی جگہ پر موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی ڈی اے کے ایک عہدیدار نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ابھی تو یہ عدالتی حکم نامہ ہے، ابھی دیکھنا یہ ہے کہ وفاق اس پر کیا ایکشن کرے گا۔ ویسے بھی یہ آرڈر اپیل میں چلا جائے گا، سی ڈی اے کا تحلیل ہونا بظاہر ممکن نہیں ہے۔‘

دوسری جانب میٹرو پولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد کے وکیل خالد خان کہتے ہیں کہ سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے بیشتر محکمے لے رکھے ہیں اور ایم سی آئی کو کبھی پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا گیا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اسلام آباد کی 125 یونین کونسلز ہیں، سال 2015 کے بعد اسلام آباد کے بڑے شعبے ایم سی آئی کے دائرہ کار میں آئے لیکن سی ڈی اے نے اپنی بالا دستی ختم نہیں کی۔‘س

خالد خان کے مطابق: ’پہلے ماحولیات بھی ایم سی آئی کے پاس تھا، وہ سی ڈی اے اور انوائرمنٹ بورڈ نے لے لیا۔ سینیٹیشن اینڈ واٹر ایم سی آئی کا بنیادی کام تھا، وہ بھی سی ڈی اے نے میٹروپولیٹن کارپوریشن سے لے لیا بلکہ ایم سی آئی کی ویب سائٹ پر جو شعبے ایم سی آئی کو مختص ہیں، وہ اب سی ڈی اے نے لے رکھے ہیں جبکہ ایم سی آئی کو اپنے خرچوں کے لیے سی ڈی اے ادھار لینا پڑتا ہے۔ سی ڈی اے نے ایم سی آئی کو پاؤں پر کھڑا ہونے ہی نہیں دیا۔‘

عدالتی فیصلے کو ’درست‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ قانون کے مطابق ہے، لیکن لگ یہ رہا ہے کہ سی ڈی اے اپیل میں چلا جائے گا اور جو ہماری عدلیہ کے حالات ہیں، اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔‘

سی ڈی اے کا قیام کب عمل میں آیا؟

سی ڈی اے 1960 میں قائم کی گئی ایک شہری تنظیم ہے، جس کی ذمہ داری وفاقی دارالحکومت میں ترقیاتی کام کروانا تھا۔ اس کے علاوہ شہریوں کے لیے سیکٹرز بنانا اور اس میں تمام بنیادی سہولتوں کا انتظام کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔

سی ڈی اے کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ ادارہ شہر کی پائیدار ترقی اور انتظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

میٹرو پولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد کی کیا ذمہ داری ہے؟

میٹروپولیٹین کارپوریشن بنیادی طور پر اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے تحت وجود میں آئی۔

اس کی ذمہ داریوں میں صحت کے معاملات، ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ، ریسکیو 1122 اور اسلام آباد کے تمام ماڈل سکولز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کا نظام، صفائی، سینیٹیشن اور ترقیاتی منصوبے بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔

میٹروپولیٹین کارپوریشن کے انتظامی امور کی سربراہی کچھ عرصہ ایڈمنسٹریٹر کے پاس رہی۔ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد عرفان میمن کے پاس ایڈمنسٹریٹر اسلام آباد کے اضافی اختیارات تھے۔

ڈی سی کا بطور ایڈمنسٹریٹر کردار اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کی عدم موجودگی سے منسلک ہے جبکہ یونین کونسلوں کی تعداد میں تبدیلی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہوئی ہے۔

میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے وکیل خالد خان کے مطابق: ’ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات نہیں ہو رہے، کوئی عوامی نمائندہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ ساری مشکلات دیکھنی پڑ رہی ہیں۔

’پہلے ایڈمنسٹریٹر ڈی سی اسلام آباد تھے لیکن ان کی تعیناتی میں توسیع نہیں ہوئی تو چیف آفیسر کو تعینات کیا گیا، جو ایڈیشنل کمشنر اسلام آباد ہیں اور کمشنر اسلام آباد اور چیئرمین سی ڈی اے کے ماتحت ہیں تو پھر ایم سی آئی خود مختار طریقے سے کیسے پھل پھول سکتا ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 28جون کو وفاقی حکومت کو سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’وفاقی حکومت سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا عمل شروع اور مکمل کرے۔‘

عدالت نے تحریری حکم نامے میں سی ڈی اے کا رائٹ آف وے اور ایکسس چارجز کا ایس آر او کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سی ڈی اے تحلیل کر کے تمام اختیارات اور اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن کو منتقل کیے جائیں۔‘

عدالت نے لکھا کہ ’اسلام آباد کا تمام ایڈمنسٹریٹو، ریگولیٹری اور میونسپل فریم ورک لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کام کرتا ہے، اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ منتخب نمائندوں کے ذریعے گورننس کا خصوصی قانون ہے، قانون کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی منظوری کے بغیر ٹیکسز نہیں لگائے جا سکتے، سی ڈی اے کے پاس ٹیکسز لگانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ’سی ڈی اے آرڈیننس وفاقی حکومت کے قیام اور اس کے ترقیاتی کاموں کےلیے نافذ کیا گیا تھا، نئے قوانین اور گورننس سے سی ڈی اے آرڈیننس کی عملی افادیت ختم ہو چکی ہے، سی ڈی اے کے قیام کا مقصد پورا ہو چکا، حکومت اسے تحلیل کرے، یقینی بنایا جائے کہ اختیارات منتقلی کے بعد اسلام آباد ایڈمنسٹریشن شفاف اور قابلِ احتساب ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان