انسان نے لباس کب پہننا شروع کیا؟ ضرورت سے فیشن تک کا سفر

لباس کا آغاز ہماری حفاظت اور گرم رکھنے کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ خواہش کی چیز اور برتری کی علامت بن گیا۔

17ویں صدی کی فرانسیسی خواتین کے رنگا رنگ ملبوسات (پبلک ڈومین)

اس بات کا جواب تلاش کرنے میں بنی نوع انسان کو دس لاکھ سال لگے کہ کپڑے کیسے بنائے جائیں۔ یہ مرحلہ ان ادوار کے دوران میں کسی وقت طے پایا جب ہم اپنے جسم سے بال گرا کر ننگ دھڑنگ بندر بننے لگے اور جب ہم نے پہلی بار جانوروں کی کھال اوڑھنی شروع کی۔

آثارِ قدیمہ کو دیکھا جائے تو کافی مناسب شواہد ملتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پتھر کے ابتدائی دور کے تقریباتی ملبوسات اور فر کوٹ کی باقیات بڑی تعداد میں آپ کو مل جائیں گی۔ ہمارے پاس تین ہزار سالہ قدیم اونی پتلونیں موجود ہیں، جن کا ٹانگوں والا حصہ آراستہ ہے (جو وسط ایشیا کے خانہ بدوش گھڑ سوار پہنتے تھے)۔ آلسی کے چند ٹیڑھے میڑھے ٹانکوں والے قدیم ترین چیتھڑے جو ہمارے پاس موجود ہیں وہ تقریباً 34 ہزار سال پرانے ہیں۔

لیکن ایسے ساز و سامان کے زیادہ قدیم شواہد ملتے ہیں جو کپڑے بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے نوادرات دریافت ہوئے ہیں جیسا کہ جانوروں کی کھال سی کر قابل استعمال لباس بنانے والی سوئیاں اور سُوئے جو تقریباً 50 ہزار سال پرانے ہیں (خاص طور پر سائبیریا کے غار ڈینی سووا سے)۔ یہاں تک کہ فراخ دلی سے رعایت دینے اور کھرچنے کے خام آلات شامل کرنے کے باوجود کپڑوں کے ابتدائی نمونے محض ایک یا دو لاکھ سال قبل ہومو سیپینز تک جاتے ہیں (پسو جو کپڑوں میں رہتے ہیں ان کی ابتدائی تاریخ تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار سال پرانی ہے)۔ سو یہ بات واضح ہے کہ ہمارے آباؤ و اجداد ہومینیڈ کم سے کم دس لاکھ سال تک بالکل ننگے پھرتے رہے۔

موسم (افریقہ میں) اور بھاگنا (چاہے درندے سے بچنے کے لیے یا کسی جانور کا شکار کرنے کے لیے) دونوں نے ہمیں گرم رکھا۔ دراصل برہنگی کا تصور غلط زمانے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بات بھلا کیسے جان سکتے تھے کہ ہم ننگے ہیں جب تک ہمارے پاس ننگا نہ ہونے کی سہولت موجود ہو؟

 

لباس کی ایجاد کے بعد ہی ہم پر منکشف ہوا کہ ہم تو پہلے برہنہ تھے۔ ’نیوڈ‘ لفظ وجود میں آیا یعنی لباس کے بغیر۔ بالآخر جب غاروں کے اندر مصوری کا آغاز ہوا تقریباً اس کے ساتھ ہی پورنو گرافی بھی وجود میں آئی۔ بائبل نے اسے الٹے سرے سے پکڑا ہے: یہ انجیر کے پتوں کا بطور لباس استعمال تھا جس کی وجہ سے ہمیں اس وقت برہنگی محسوس ہوئی جب ہمارا جسم انجیر کے پتوں سے محروم ہوا۔

’ون ملین ایئرز بی سی‘ فلم (جس کی تشہیر اس نعرے سے کی گئی کہ ’تب بالکل ایسا ماحول تھا‘) میں راکیل ویلچ کی جانور کی کھال سے بنی ناتراشیدہ دلکش بکنی کو اس قدر پسند کیا گیا کہ اس کی طلب رسد سے آگے بڑھ گئی۔ جب ہم افریقہ سے خطرناک سفر پر نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر سائبیریا اور الاسکا جا پہنچے اور جب ہمیں برفانی ادوار نے آ لیا، تب لباس نے ہمیں بڑھتی ہوئی سرد ہوا سے بچایا۔ سردی کے سبب اعضا کو نیم جاں ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے بہت سے التزام کیے اور اس طرح زیر جامہ پہننے کا آغاز ہوا، مگر جو ضرورت تھی وہ ایک مزے دار چیز بھی تھی اور اس لیے اس کی تمنا بھی کی جانے لگی۔ لباس حرص کی چیز بن گیا۔ اس کا تبادلہ اور چوری بھی ہو سکتی تھی اگرچہ لباس کے اصل مالک کی تقریباً لاش پر سے گزرنا پڑتا تھا، جس کے بعد ہی آپ اسے پہن سکتے تھے۔

لیکن لباس نے ہمارا سوچنے کا انداز بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ہمارے دماغوں نے پوشیدہ رکھنے کا تصور اپنے اندر بساتے ہوئے ہمیں سازشی منصوبہ ساز لیکن اعصابی مریض بنا دیا جیسا کہ ہم آج ہیں۔

یونیورسٹی آف سڈنی میں قبل از تاریخ کے ماہر اور موسم، لباس اور زراعت قبل از تاریخ کے آئینے میں (Climate, Clothing and Agriculture in Prehistory) نامی کتاب کے مصنف این گلیگن اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ابتدائی ’ٹیکنالوجی‘ کے انسانی ارتقا بالخصوص زراعت کی ترقی میں کئی طرح کے اثرات ہیں۔ زراعت محض کھانے پینے تک محدود نہیں تھی۔

گلیگن 12 ہزار سال قبل گلوبل وارمنگ کے واقعے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں جو وسط حیاتیاتی دور (Pleistocene) اور ہولوسین (Holocene) کے درمیان میں کہیں پیش آیا۔ موسم زیادہ گرم اور زیادہ مرطوب ہو گیا۔ ہم اس مرحلے پر پہنچ چکے تھے جہاں ہمارے لیے پورا لباس اتار پھینکنا ممکن نہ رہا تھا۔ خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہم مجبوراً جانوروں کی کھال سے کپڑوں تک آ گئے۔ روئی خود بخود ایک بیش قیمت تجارتی چیز بن گئی۔ بالکل جیسے منطقہ حارہ کے خطوں کے لیے جنگلی کیلے کے ریشے۔ ہم اناج بھی اگا رہے تھے لیکن ہماری زیادہ توجہ ایسی اجناس اگانے پر تھی جس سے کپڑے بنائے جا سکیں اور بھیڑ بکریاں، لاما اور الپاکا کے ریوڑ پالنے پر تاکہ ان کی اون کاٹی جا سکے۔

گلیگن کہتے ہیں، ’یہ سمجھنا کافی مشکل ہے کہ قبل از تاریخ کے عہد میں گھوم پھر کر شکار کرنے والے انسان نے محض خوراک کے حصول کے لیے کیوں زراعت کا پیشہ اختیار کیا ہو گا اور شاید اس نے ایسا کبھی نہ کیا ہو۔‘ ہم گھوم پھر کر ایسے ہی شکار سے خوراک اکٹھی کرتے رہتے لیکن پہننے کے لیے چمڑے اور پشم سے کم گرم، نفیس کپڑوں کے جوڑوں کی ضرورت نے ہماری آوارہ گردی پر بند باندھا اور ہمیں ایک جگہ ٹھہرنے، مہذب بننے اور دھاگے سے کپڑا بننے پر مجبور کر دیا۔

لوگ جو کچھ پہنتے ہیں، اس کا ذکر بائبل اور قرآن میں ملتا ہے۔ یوسف کا ’شاندار رنگ برنگا کوٹ‘ یا ’کئی رنگوں والے کوٹ‘ سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے مخصوص طرز کا لباس پہلے سے ہی ایک امتیازی حیثیت کا نشان تھا یا باآسانی حسد اور تشدد ابھار سکتا تھا۔ اس کے علاوہ کپڑے تیار کرنے والے اوزاروں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ’سو ایک مالدار شخص کے جنت میں داخل ہونے کی نسبت ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا زیادہ آسان ہے۔‘ ریشم دنیاوی مال و دولت کی علامت ہے اگر دانائی کی نہیں تو۔ اس کے برعکس جوتوں کے بغیر گھومنا غربت کی علامت ہے۔ گناہ گار فقط ٹاٹ کے کپڑوں اور راکھ کے حقدار ہیں۔ لیکن اچھے ملبوسات تقدس کے ساتھ مخصوص کیے گئے۔ پادری بڑے بڑے جبے پہنیں گے کہ یہ خدا سے زیادہ قربت کا اشارہ کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں کپڑے بہت جلد خالص ضرورت سے ہٹ کر علامتی روپ اختیار کر گئے۔ اسی طرح اس کے برعکس ہوا کہ بالکل ہی مادر زاد ننگا پھرنا یا انتہائی مختصر واجبی سا لباس پہننا جو پاگل پن اور جنسی بے ہودگی کا مترادف ہے، اسے ممنوع قرار دیا گیا یا ضابطے کا پابند بنایا گیا۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ برہنہ پھرنے کے شوقین (جنہیں نیکڈ ریمبلر کہا جاتا ہے) بار بار گرفتار ہوتے رہے بالخصوص سکاٹ لینڈ میں۔ مگر ارتقائی عمل میں ہمارے اندر پیدا ہونے والی شرمساری کی خو کا تعلق محض اس بات سے نہیں کہ ایک بھیانک خواب میں آپ کسی شاہراہ تک پہنچیں اور تب اندازہ ہو کہ آپ تو کچھ پہننا ہی بھول گئے تھے بلکہ لباس کے عمومی رجحان سے ہے۔

اسی طرح ہمارے لباس نے ہمارے سوچنے کے انداز پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہاں تک کہ انجیر کے پتوں اور دھوتی باندھنے کے وقتوں سے ہی ہم نے ’ملبوس احساس‘ کی عادت اپنا لی۔ درمیان میں کچھ چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آج کی بات کرتے ہیں کہ سوت کاتنے والی مشین کی ایجاد سے کپڑوں کی صنعتیں قائم ہونے اور  برطانوی فیشن سٹور ’بوہو‘ کے عروج سے گزر کر آج ہم اس قبل از تاریخ کے خبط کے وارث ہیں کہ کیا پہنیں اور کیا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شکیلا فوربز بیل فیشن کے شعبے میں ایک ماہر نفسیات ہیں جو ممکن ہے ہمیں مارکوس کی (Marcos syndrome) عالمی بیماری سے بچا لیں۔ وہ گلے میں جگمگاتا ہوا ہار ڈالا کرتی تھیں جس پر یہ الفاظ کندہ تھے ’پریشان مت ہوں، خوش رہا کریں۔‘ وہ اسے کھونے پر آج بھی سخت افسوس کا اظہار کرتی ہیں۔ ’وہ ہار کتنی آسانی سے بات شروع کرنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔ وہ میرے لیے بند دریچے کھول دیتا تھا۔‘ بہت سی ٹی شرٹس پر اب اصل جملے یا نعرے یا چبھتے ہوئے فقرے لکھے ہوتے ہیں لیکن ہر لباس کوئی نہ کوئی پیغام دے رہا ہوتا ہے۔ یہ رومانوی جملے بتاتے ہیں کہ کپڑے محبت بھرے گیت جیسے ہیں، ایک رومانس کی طرح ہیں۔ ہم اپنے بارے میں جو تصورات رکھتے ہیں، یہ انہیں اندر سے نکال کر باہر لے آتے ہیں۔

فوربز بیل نے فیشن کی نفسیات یونیورسٹی کالج لندن سے پڑھیں اور لندن کالج آف فیشن سے ایم اے کیا۔ آخری سال میں ان کی تحقیق کا موضوع ’ملبوسات اور نسل پرستی‘ تھا جس میں ان کی توجہ اس بات پر رہی کہ سیاہ فام امریکی ٹریون مارٹن کی ہوڈی نے ان کے بہیمانہ قتل میں کتنا کردار ادا کیا۔ وہ فیشن اور نفسیات دونوں کی طالب علم تھیں اور اب اپنی ویب سائٹ فیشن از سائیکالوجی کے ذریعے دونوں کو ایک ساتھ لے کر چل رہی ہیں جہاں ملبوسات سے متعلق مہمان مصنفین کی تحریریں چھپتی ہیں اور ہماری روزمرہ زندگی پر پیچیدہ علمی نظریے لاگو کیے جاتے ہیں۔ صارف کا رویہ اور محرک شناخت کرنے کے لیے وہ ’نیکسٹ‘ اور ’سینزبری‘ جیسی کمپنیوں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں۔

آپ جو کچھ بھی پہنتے ہیں وہ کسی اور چیز کی علامت ہوتا ہے۔ یہ محض وہ نہیں جو نظر آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ نے پھٹی ہوئی کہنیوں والا بغیر کالر پرانا سویٹر پہن رکھا ہے یا آپ ہارڈ ویئر کی دکان سے جوتے خریدتے ہیں تو وہ بھی آپ ایک سٹائل منتخب کر رہے ہیں۔ فیشن سے بچ کر آپ نکل نہیں سکتے۔ ایک ہی راستہ ہے اگر آپ خرچ برداشت کر سکیں تو اپنے لیے مختلف چیزوں کا انتخاب کریں۔

 

فوربز بیل کہتی ہیں: ’میں ایک ہی مخصوص انداز کو ناپسند کرتی ہوں۔ ایک دن میں کریبیئن کے سالانہ میلے کی ملکہ ہو سکتی ہوں تو اگلے دن میں ایک محقق یا کاروباری خاتون یا لاابالی انسان ہو سکتی ہوں۔‘ اوپر دی گئی دو تصاویر سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔

عالمی وبا سے پہلے وہ ہر سال ٹرینیڈاڈ کے سالانہ میلے میں جاتی تھیں۔ ’کپڑے ہتھیار ہیں۔ آپ کو انہیں جسم کی نمائش کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ نہ کہ چھپانے کے لیے۔‘ ان کا سالانہ میلے کے لیے رال پرمانند کا تیار کردہ مخصوص لباس Masquerader کے نام سے معروف ہے اور وہ Yuma بینڈ کا حصہ تھیں۔

تمام ملبوسات ہماری وابستگیوں کا اظہار ہیں۔ یہ ناگزیر طور پر ہماری نسلوں کا پتہ دیتے ہیں۔ ماضی میں یہ mods vs rockers تھے۔ پھر یہ punk ہوئے، یا ممکنہ طور پر goth۔ فوربز بیل ہماری چند گہری فرقہ ورانہ درجہ بندیوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ’2016 میں ایک مشہور فیشن ایڈیٹر آئے اور کہا کہ اگر میں سیاہ فام ماڈل کی تصویر بیرونی صفحے پر لگاتا ہوں تو یہ بکے گا نہیں۔ میں یہ بات غلط ثابت کرنا چاہتی تھی۔ یہ شدید نفسیاتی تباہی کا باعث بن رہا تھا۔‘ انہوں نے تحقیقی مجلے ’مارکیٹ ریسرچ‘ میں ایک مضمون شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ سیاہ فام ماڈل کی تصویر سے آراستہ ایک پرفیوم کی خریداری کے لیے سیام فام لوگ زیادہ رقم خرچ کرنے کو تیار تھے۔ ’سیاہ اور گندمی رنگت والے افراد کی قوت خرید حیران کن حد تک مضبوط ہے۔ ہم ان کی نمائندگی میں اضافہ دیکھ رہے ہیں لیکن سیاہ فام فیشن ماڈلز نسبتاً اب بھی کم نمائندگی رکھتی ہیں۔‘

لیکن ہمارے ملبوسات ہمارے اپنے بارے میں احساسات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ وہ آپ کی کیفیت خوشگوار بنا سکتے ہیں (یا بالکل اس کے برعکس کر سکتے ہیں)۔ فوربز بیل ایک تجربے کا حوالہ پیش کرتی ہیں جس میں لوگوں کو سپرمین والی ٹی شرٹ پہننے کو دی گئی تھی۔ انہوں نے ایسے پابند گروہ کی نسبت خود کو زیادہ مضبوط سمجھا جنہیں سپرمین کِٹ فراہم نہیں کی گئی تھی۔ وہ اس نتیجے کو ’قرین قیاس‘ کہتی ہیں کیونکہ ہمارے ذہنوں کی وابستگیاں زیادہ تر ثقافت کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ لیب والا سفید لباس پہننا دراصل آپ کو زیادہ سائنٹیفک بناتا ہے، ایک رسمی لباس آپ کو عسکری منصوبہ ساز کا روپ دیتا ہے۔

لیکن خالص جسمانی سکون بھی ان کی ایک بنیادی ترین ترجیح ہے۔ ’اگر آپ ایسے کپڑے پہنیں جو جسمانی ساخت کے مطابق نہیں تو وہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ وہ پہنیں جو آپ کے جسم پر موجودہ لمحے مناسب بیٹھتا ہے۔‘ جب میری ان سے بات ہوئی تب انہوں نے کھلی سفید شرٹ اور نیچے ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں: ’آرام دہ لباس آپ کو بہتر کام کاج کی آزادی دیتا ہے۔ آپ کو غیر مناسب لباس سے اپنی توجہ منتشر نہیں ہونے دینی چاہیے۔ سہولت شعور کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہے۔‘

شہرہ آفاق امریکی گلوکار ایلوس پریسلے کے جمپ سوٹ کا ان کے شعور پر کس حد تک اثر تھا یہ معلوم نہیں۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ یہ لباس کا ایک ٹکڑا ہی تھا جس پر ایلوس کے تمام نقالوں نے ساری توجہ مرکوز رکھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ میرے خیال کے مطابق یہ انجیر کے پتوں کے بعد تیار کیے گئے مضحکہ خیز ترین ملبوسات میں سے ایک تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی لباس ایسا نہیں جسے اعتبار بخشنے والا کوئی نہ کوئی موجود نہ ہو، چاہے کسی دوسرے کی نظر میں وہ کیسا ہی بھدا کیوں نہ ہو اور اس معاملے میں فوربز بیل کی بھی ایسی ہی رائے ہے۔ ’کنگ آف راک کے کردار میں خود کو پیش کرنے کے لیے ایلوس نے بے ڈھنگے اور بولڈ ملبوسات استعمال کیے۔ لباس ساز لباس کے استعمال سے فنکار کو اپنے کردار میں ڈھلنے کے لیے تعاون فراہم کرتے ہیں۔ یہ نمایاں ہونے کے ایک طریقے سے آگے کی بات ہے، یہ اس لباس سے وابستہ خصوصیات کو عملی شکل میں پیش کرنے کا اسلوب ہے۔ کوئی بھی اس جمپ سوٹ کو دیکھ کر یہ نہیں سوچے گا کہ وہ ’خطرے سے خالی‘ ہے، لوگوں کو لگے گا وہ ’بولڈ،‘ ’بے باک‘ اور ’سنسی خیز‘ ہیں جو ڈیزائنر بل بیلو کے نپولین عہد سے متاثر ہونے کے عین مطابق ہے۔‘

کپڑوں کی ہر الماری ایک مخصوص معاشرہ ہے جو اپنی ثقافت رکھتی ہے۔ اور یہ ناسٹیلجیا کو محفوظ رکھنے کی جگہ ہے۔ وہ تمام پرانے پارچہ جات جنہیں آپ پھینکنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اٹھارہ سالہ شکیلہ کی جسمانی ساخت کے مطابق فوربز بیل کے پاس کثیر تعداد میں پارٹی ڈریس ہیں۔ ’میں انہیں خود سے جدا نہیں کر سکتی، یہ وہ ہیں جو میں ہوا کرتی تھی۔ آپ کے کپڑے میموری باکس کی طرح ہیں۔ وہ آپ کو ماضی میں لے جاتے ہیں۔‘ اپنی کپڑوں کی الماری میں جھانکتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ اگلے چند ہزار برسوں میں دوبارہ کھولی گئی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ شاید مجھے غلطی سے کوئی پال سمتھ سمجھ لیا جائے۔ میں شاید ایک لیبل کو حد سے زیادہ پسند کرنے کی گنہگار ہوں۔

مگر کیا بات محض اتنی سی ہے کہ ہم بہت زیادہ کپڑے خرید رہے ہیں؟ کپڑوں نے کم و بیش یقینی طور پر نہ صرف انسانوں کو بلکہ پورے کرہ ارض کو کسی حد تک گرم بنانے اور یوں انسانوں کے رہنے کے لیے زیادہ تکلیف دہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کچرے کی پیداوار اور پانی کے کثیر استعمال سے قطع نظر اب دنیا میں دس فیصد کاربن کے اخراج کی ذمہ دار کپڑا سازی کی صنعت ہے۔ 2020 میں اندازے کے مطابق 100 ارب نئے لباس تیار کیے گئے تھے۔

ہم ان کی بہتات میں ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اپنے ہی کپڑوں کی سختی کے ہاتھوں۔ میرے جاننے والے افراد میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ کپڑے ہیں وہ ہے ایلسا ۔ ان کے پاس فرش سے لے کر گودام کی چھت تک (اور وہ کافی اونچی چھت ہے) کپڑوں کے ہزاروں جوڑوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ ٹوپیوں کی بڑی تعداد، شوز، جوتے، ٹائیاں، ڈنر جیکٹس، واسکٹیں، رقص کے مخصوص لباس، ہر طرح کی پوشاکیں۔ مردانہ اور زنانہ دونوں۔

اگرچہ ان کے پاس اس کی معقول وجہ ہے کہ وہ تھیٹر اور فلم والوں کو لباس بیچتی ہیں۔ جب وہ کسی ایئرپورٹ پر اترتی ہیں تو انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ کنویئر بیلٹ پر مردوں کے درجنوں یا اس سے بھی زائد مختصر ٹراؤزر لگے ہوتے ہیں۔ اپنے سامان کے ساتھ مزید اضافی سامان لے جانے کے لیے انہیں واجبی سی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ جیسا کہ وہ بہت جامع انداز میں ساری بات کہہ ڈالتی ہیں ’میرے پاس بہت سارا گند بلا جمع ہے۔‘ شاید اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ افسانوں کردار جیک ریچر کی طرح بننے کے خواب دیکھتی ہیں جن کے پاس صرف وہی کپڑے ہیں جو بدن پر پہن رکھے ہوں (اور جب وہ کسی دوسرے کے خون میں رنگے جائیں تو اتار کے پھینک دیتی ہیں) اور اپنی جیب میں محض دانت صاف کرنے والا ایک برش رکھتی ہیں۔

گوبل وارمنگ کے نئے عہد میں یہ ناگزیر ہے، مختصر لباس روزمرہ کا معمول بننے جا رہا ہے۔ چاہے آپ برہنگی کے علم دار نہ ہوں لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ سب کچھ اتار پھینکے میں، بالخصوص گرمیوں کی بے لباس تیراکی میں ایک آزادی کا احساس ہے۔ یہاں تک کہ ایسے پیشہ ور افراد جن کا ذریعہ معاش ہی کپڑے ہیں وہ بھی دوبارہ بے لباس ہونے کی شدید خواہش رکھتے ہیں، چاہے مختصر وقت کے لیے ہی سہی۔

شاید دلی طور پر ہم سب ملین برسوں پہلے کے سنہرے دور میں لوٹ جانا چاہتے ہوں جب ہمیں اس بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہونا پڑتا تھا کہ ہم نے کیا پہنا ہوا ہے۔ ’پریشان مت ہوں، خوش رہیں‘ آج بھی ایک بہترین مشورہ ہے۔

اینڈی مارٹن سرف، سویٹ اینڈ ٹیرز: دی ایپک لائف اینڈ مسٹریئس ڈیتھ آف ایڈورڈ ولیم عمر ڈیرہرسٹ کے مصنف ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ