وزیرستان کی دلہنیں جب 'گانڑخت' لباس پہنتیں تو چار چاند لگ جاتے

وزیرستان میں ایک لڑکی کی سونے کے بغیر شادی ممکن تھی لیکن گانڑخت لباس کے بغیر ہرگز نہیں۔ اس کے بغیر دلہن ادھوری ہوتی تھی۔

دلہن کو تیار کرکے جب گانڑخت کے ساتھ دلہن کے اوپر سفید دوپٹہ ڈالا جاتا ہے تو یہ نہ بھولنے والا منظر ہوتا ہے(تصاویر رضیہ محسود)

جس طرح ہر علاقے کا اپنا ایک روایتی لباس ہوتا ہے، اسی طرح جنوبی وزیرستان میں بھی ایک مشہور اور مخصوص روایتی لباس 'گانڑخت' ہے۔

گانڑخت بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح شہروں میں عورتیں عبائے یا برقعے کا استعمال کرتی ہیں۔ پہلے جب عورتیں گھر سے باہر کاموں کے لیے نکلتیں، جیسے پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کر لانا یا چشموں سے پانی بھر کر لانا، تو گانڑخت کا استعمال کیا جاتا تھا۔

وزیرستان میں عبائے یا برقعے کا نام ونشان نہ ہوتا تھا۔ غیر شادی شدہ لڑکیاں اپنے سوٹ کے ساتھ دوپٹہ پہن کر لکڑیاں کاٹنے یا چشموں سے پانی بھرنے جایا کرتی تھیں۔

گانڑخت صرف شادی شدہ عورتیں استعمال کرتی تھیں اور اس سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ لڑکیوں کا پتہ چل جاتا تھا۔ جب میکے جانا ہوتا تو بھی گانڑخت پہن کر ہی جایا جاتا۔

گانڑخت ہی بطور برقعہ یا عبایا پہنا جاتا تھا جو انتہائی خوبصورت نظر آتا تھا۔ سرخ و شوخ گانڑخت کے ساتھ سفید دوپٹہ پہن کر دلہن کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے تھے۔ جوان عورتیں زیادہ تر سفید دوپٹہ، جب کہ زیادہ بڑی عمر کی عورتیں کالے یا دوسرے مختلف رنگوں کے دوپٹے پہنا کرتی تھیں۔

گانڑخت کی تیاری میں کافی وقت لگتا تھا اور جب دلہن کی شادی کا وقت قریب آتا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب دلہن کی (لوس نیوائی) منگنی ہو جاتی تو گانڑخت کی تیاری شروع کی جاتی تھی کیونکہ دلہن کے لیے گانڑخت لازم و ملزوم ہوتا تھا۔ اس کے بغیر دلہن ادھوری ہی نہیں بلکہ اس کے بغیر شادی نہیں ہوتی تھی۔

چاہے کوئی کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو گانڑخت دلہن کے لیے ضرور تیار کرواتا تھا۔ دلہن کی سونے کے بغیر شادی ہو جاتی تھی مگر گانڑخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گانڑخت کئی مراحل سے گزرتا تھا کیونکہ اس کے لیے خاص ماہرین کی ضرورت پڑتی تھی اور یہ پانچ، چھ مختلف قسم کی کڑھائی سلائی میں مہارت رکھنے والی خواتین تیار کرتی تھیں۔

اس میں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کی بھی مہارت استعمال ہوتی تھی۔ مرد گانڑخت میں چاندی کے مختلف نمونے بنا کر لگاتے جنہیں بےجے، گل ماخئی، چاؤانئی وغیرہ کہتے ہیں۔ یہ نمونے تقریباً 52 تولے چاندی کے بنوائے جاتے۔

گانڑخت کے لیے مخصوص 40 گز کا کپڑا استعمال ہوتا ہے، جسے باندینہ کہا جاتا ہے اور یہ کپڑا اس وقت سعودی عرب سے منگوایا جاتا تھا اور کراچی میں بھی ملتا تھا۔

اس(باندینہ) کے بغیر گانڑخت بننا ناممکن ہوتا تھا۔ گانڑخت کی تیاری اور اس کا صرف اوپر کے حصے میں مندرجہ ذیل چیزیں استعمال ہوتی تھیں۔ 

گریون: گریون گانڑخت کے سامنے گلے سے لے کر آخری پسلی کے اوپر والے حصے تک کو کہا جاتا ہے۔ اس پر مخصوص کشیدہ کاری ہوتی ہے۔

کوت: کوت یہ گریون کے نیچے دونوں اطراف پر جیب کو کہا جاتا ہے۔

چولئی: چولئی بھی مختلف کشیدوں سے بنے ہوئے حصے کو کہا جاتا ہے اور یہ پشت پر لگائی جاتی ہے۔  

دے چولئی ریمول: یہ چولئی کے اوپر رومال کو کہا جاتا ہے اور یہ رومال عورتیں اپنی پسند کا بنواتی تھیں۔ کوئی اس کو شیشوں سے تیار کراتی، کوئی اس کو جالی نما موتیوں سے تیار کراتی تو کوئی اس کو ستاروں سے تیار کراتی۔

باچکاک: یہ ایک باریک سی پٹی ہوتی ہے، جو گریون اور چولئی کو آپس میں ملاتی ہے اور یہ گانڑخت کے اردگرد لگائی جاتی ہے۔

خشتکئی:  یہ دونوں بازوؤں کے نیچے کی جگہ پر تکون کی شکل میں بنوا کر لگائی جاتی تھی اور اس میں بھی چھوٹے شیشے لگائے جاتے تھے۔ 

مٹینہ: یہ  گانڑخت کے کندھوں پر لگائے جاتے ہیں اور ان کو بھی مخصوص دھاگوں سے بنوایا جاتا ہے۔

لوس واندی: یہ ایک طرح سے گانڑخت کی دونوں آستینوں کو سہارا دینے کے لیے بنایا جاتا ہے کیونکہ گانڑخت کی آستین عام آستینوں کی نسبت بہت بڑی ہوتی ہے اور اس پر مخصوص کشیدہ اور چاندی کے بنے ہوئے گل ماخئی مزید اس کے بھاری پن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، لہذا کام کے دوران ان آستینوں کو سہارا دینے کے لیے لوس واندی دونوں آستینوں کے ساتھ موتیوں کے بنوا کر لٹکائے جاتے ہیں۔

جب کام کرنا ہوتا ہے تو انہی لوس واندی کے ذریعے آستینوں کو سہارا مل جاتا ہے اور کام کے دوران آستین دشواری پیدا نہیں کرتی۔

زینڈی: یہ بھی مخصوص دھاگوں سے گول بڑے بٹن کی شکل میں بنوائے جاتے ہیں۔ پانچ بڑے زینڈی ہوتے ہیں اور چھ چھوٹے زینڈی ہوتے ہیں۔ پانچ بڑے زینڈی گریون ہر لگاتے ہیں اور تین چھوٹے زینڈی ایک آستین پر اور تین دوسری آستین پر لگاتے ہیں۔ اس زینڈی پر موتیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

بے جے: یہ مخصوص شکل کے چاندی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں سنار سپیشل آرڈر پر بناتا ہے اور ان کو زینڈی کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ ان میں چھن چھن کرتی ہوئی چھوٹے چھوٹے گول چاندی کے گھنگرو بھی لگے ہوتے ہیں۔ جب دلہن گزرتی ہے تو اس کی چھن چھن سے اس کے آنے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

 گانڑخت میں کشیدہ کاری کے بھی اپنے مقامی نام ہوتے ہیں جیسے کہ

(لاڑام) یعنی بچھو کشیدہ جس کی شکل بچھو سے ملتی ہے۔

(شکراوار) وہ کشیدہ جس کے سینگ نکلے ہوتے ہیں۔

(کونڈائی کشیدہ) وہ کشیدہ جس کے سینگ نہیں ہوتے۔ (گینگٹکائی کشیدہ) وہ کشیدہ جس کی شکل ایک مخصوص کیڑے سے ملتی ہے۔

(شوبلا کشیدہ) اس طرح مختلف ناموں سے کشید کے نمونوں کے نام رکھے ہوتے ہیں جن سے باآسانی یہ عورتیں کشیدوں کو پہچان سکتی ہیں۔

گانڑخت کی تیاری میں لونگ کو بطور موتی بھی کڑھائی میں استعمال کیا جاتا ہے اور جس راستے سے دلہن گزر جاتی ہے وہاں لونگ کی خوشبو سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں سے کسی نئی نویلی دلہن کا گزر ہوا ہے۔

یہ تو گانڑخت کا صرف اوپر والا حصہ ہے اور جب یہ حصہ بن جاتا ہے تو گانڑخت کا نچلا حصہ جو کہ 40 گز کے باندینہ سے تیار کیا جاتا ہے، درزن کے پاس جاتا ہے جس کو نہایت مہارت کے ساتھ اوپر والے حصے سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اس میں نہایت باریک بینی کے ساتھ گولائی لائی جاتی ہے۔ یوں 40 گز کا کپڑا سمٹ کر ایک لباس میں آجاتا ہے۔

اس گانڑخت کے نچلے حصے کو جسے دامن کہا جاتا ہے اس میں مخصوص قسم کا کالا کپڑا اس کے پچھلے حصے پر لگایا جاتا ہے جسے پیسے کہا جاتا ہے۔ جب گانڑخت تیار ہوتا ہے تو اس میں چنٹیں لانے کے لیے اس پر پانی چھڑک کر دو عورتوں کی مدد سے گول مروڑا جاتا ہے اور ایک کپڑے سے گانڑخت کو گول باندھ کے کئی دن رکھ دیا جاتا ہے اور اس پر صرف پانی سے چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ جب شادی کا وقت قریب ہو تو پھر اس گانڑخت کو کھول کے دلہن کو پہنایا جاتا ہے۔

دلہن کو تیار کرکے جب گانڑخت کے ساتھ دلہن کے اوپر سفید دوپٹہ ڈالا جاتا ہے تو یہ نہ بھولنے والا منظر ہوتا ہے اور اس پر کی گئی محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔ 

اب لوگوں میں گانڑخت کا استعمال ختم ہوتا جا رہا ہے اور وزیرستان میں گانڑخت کی جگہ عبائے اور برقعے نے لے لی ہے۔

افغانستان سے جب پناہ گزین ان علاقوں میں آئے تو انہوں نے ہمارے کلچر پر بہت سے اثرات چھوڑے۔ شٹل کاک یا ٹوپی والا برقعہ عام ہونے لگا اور شہروں میں آکر ہمارے لوگوں نے عبائے کو اپنا لیا۔

گانڑخت کا استعمال اب وزیرستان میں بہت کم نظر آتا ہے اور دلہن کے لیے اب گانڑخت کی نسبت لہنگے یا فراک کا استعمال کیا جاتا ہے۔

شدت پسندی سے جنگ نے ہمارے گھروں اور جائیداد کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے کلچر کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچایا۔ اب ہماری اکثر نوجوان لڑکیاں گانڑخت کا صرف نام جانتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین