صوبہ تخار افغان حکومت اور طالبان کے لیے کتنا اہم؟

تخار کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں اکثر آبادی کا تعلق تاجک اور ازبک قوم سے ہے جبکہ پشون یہاں ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں۔

افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے جنگجو 13 مئی 1998 کو شمالی صوبہ تخار کے علاقے اشکیمش میں طالبان کے خلاف جوابی حملے کے لیے روانہ ہونے سے قبل روسی ساختہ ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کے قریب جمع ہیں۔ طالبان نے مسعود فورسز کے خلاف شدید لڑائی کے بعد اشکیمش پر قبضہ کر لیا تھا (اے ایف پی)

صوبہ تخار کے گورنر مولوی عبداللہ قرلق کا کہنا ہے افغان حکومت نے طالبان کے صوبائی مرکز تالقان پر فی الالحال ایک بڑے حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔

صوبائی گورنر نے مزید بتایا کہ اس حملہ کے لیے طالبان نے نہ صرف صوبہ تخار کے جنگجوؤں کو اکھٹا کیا تھا بلکہ ہمسایہ صوبوں بدخشاں اور قندوز سے بھی بڑی افرادی کمک منگوائی تھی لیکن افغان فورسز نے ان کی پیش قدمی کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ان کو شدید جانی نقصان سے بھی دوچار کیا۔

صوبہ تخار کے گورنر کا کہنا ہے حکومتی فورسز کے فضائی حملوں میں کم از کم 21 طالبان مارے جاچکے ہیں جن میں ان کے ایک اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔

اس شدید لڑائی سے بڑی تعداد میں مقامی لوگ گھر بار چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں سرکاری سکولوں اور بعض جگہ کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ لوگ غذا اور دیگر بنیادی ضرورتوں کے لیے حکومت یا امدادی اداروں کی راہ تک رہے ہیں۔

صوبائی حکومت کے ڈائریکٹر برائے پناہ گزین یٰسین لبیب کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں تقریبا 10 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔

 

صوبہ تخار نائن الیون سے قبل افغان طالبان کی مخالف قوتوں یعنی شمالی اتحاد کا مرکز رہا ہے۔ 

تخار اور اس کا پڑوسی صوبہ بدخشاں دو صوبے تھے جن پر طالبان افغانستان میں اپنے عروج کے دور میں بھی قبضہ نہ کرسکے تھے۔

اسی صوبے کا ضلع فرخار شمالی اتحاد کے اہم کمانڈر احمد شاہ مسعود کا مرکز تھا جہاں سے طالبان کے خلاف لڑائی کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔

نائن الیون کے بعد جب طالبان کی مزاحمت نے افغانستان میں زور پکڑا تو طالبان نے ملک کے دیگ صوبوں کی طرح تخار میں بھی اپنے اہم اور پرانے مخالف جہادی کمانڈرز کو نشانہ بنایا۔

تخار سے دو ایسے اہم نام جنرل داؤد داؤد  اور حاجی مطلب بیگ کے تھے۔

یہ دونوں طالبان مخالف شمالی اتحاد کے اہم رہنما اور کمانڈر احمد  شاہ مسعود اور تنظیم جمعیت اسلامی کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کے سرکردہ وفادار ساتھی شمار کیے جاتے تھے۔

یہ دونوں اہم کمانڈر بھی یکے بعد دیگرے سال 2011 میں طالبان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

حاجی مطلب بیگ کے فرزند عبدالمتین بیگ افغان حکومت میں اہم عہدوں پر براجمان رہے بلکہ اب صدر اشرف غنی کے چیف آف سٹاف بھی ہیں۔

اس سے قبل وہ افغان انٹیلیجنس کے نائب سربراہ اور دوحہ میں حکومتی وفد میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل تھے۔

دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم اور عبدالمتین کے درمیان کئی مرتبہ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ انہی مذاکرات کے دوران طالبان نے عبدالمتین بیگ کے دو چچا زاد بھائیوں اور ان کے گھرانے کے اہم افراد کو جو افغان انٹیلیجنس کے اہلکار تھے تخار میں قتل کیا تھا۔

مطلب بیگ کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ بیگ افغان پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور ماضی میں تخار کی منتخب صوبائی اسمبلی کے سربراہ رہے۔

عبداللہ بیگ طالبان مخالف سیاسی شخصیات میں وہ پہلے رہنما تھے جنہوں نے رواں سال مئی میں طالبان کی پیش قدمیوں کے پیش نظر سب سے پہلے اپنے حامیوں کو مسلح کیا تھا۔

مقامی ذرائع کے مطابق عبداللہ بیگ طالبان کے صوبہ تخار کے مرکز تالقان پر قبضہ میں سب سے اہم رکاوٹ ہیں۔

تخار کی سیاست سے تعلق رکھنے والا بیگ خاندان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ان کا تعلق ازبک قوم سے ہے۔ یہ آغاز سے جمعیت اسلامی کے تاجک رہنما استاد برہان الدین ربانی کے اہم ساتھی رہے ہیں۔

بیگ خاندان کا مکان نائن الیون سے قبل جمعیت اور شمالی اتحاد کا مرکز تھا جہاں سے احمد شاہ مسعود طالبان کے خلاف ساری لڑائی کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیگ خاندان شروع سے ہی طالبان کے حامی ازبک جنگجوؤں کا شدید مخالف رہا ہے جو کہ ازبکستان اسلامک موومنٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کے سربراہ جمعہ خان نمنگانی کو نوے کی دہائی میں ملا محمد عمر نے افغانستان میں تمام غیرملکی جنگجوؤں کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

سکیورٹی اداروں کی اطلاعات کے مطابق طالبان کے حامی ان ہی ازبک جنگجوؤں نے مطلب بیگ پر خود کش حملہ کروایا تھا اور اب یہی ازبک جنگجو طالبان کے حمایت میں تخار اور دیگر شمالی صوبوں میں لڑ رہے ہیں۔

صوبہ تخار سے تعلق رکھنے والے لندن میں مقیم صحافی تاج الدین سروش نے صوبہ تخار کی افغان حکومت، شمالی اتحاد اور طالبان کے لیے اہمیت کے متعلق بتایا کہ یہ صوبہ پنجشیر کے بیرونی دنیا سے رابطہ کا ذریعہ ہے۔

اگر طالبان اس پر قبضہ کر لیں تو پنجشیر ایک لحاظ سے محصور ہو جائے گا۔ پنجشیر کا دوسرا اہم راستہ بدخشاں سے ہے جو پہلے ہی طالبان کے زیر قبضہ ہے۔

سروش کا کہنا ہے کہ تخار پر طالبان کا قبضہ اس لیے اہم ہے کہ شمالی اتحاد کے وہ تمام اہم کمانڈرز جو شمالی صوبوں میں طالبان کے خلاف مزاحمت کا بنیادی مرکز ہیں وہ سب اب تخار میں طالبان کے خلاف جمع ہیں لہذا اگر طالبان اس پر قبضہ کر لیتے ہیں تو پھر شمال میں دوسری ایسی کوئی اہم جگہ نہیں جو طالبان کے خلاف مزاحمت کرسکے۔

اس کے بعد طالبان باآسانی قندوز اور بدخشاں پر مکمل قبضہ کرسکتے ہیں۔

اسلامی تحریک نے پہلے سے ہی بدخشاں کے اکثر اضلاع پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

طالبان نے تخار کے واحد ہوائی اڈے ایخم پر بھی قبضہ کیا ہے جو کہ نائن الیون سے قبل احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد کے لیے باہر سے ملنے والی ہر قسم کی امداد کا واحد راستہ تھا۔

اس کے علاوہ طالبان نے تخار کی تاجکستان کے ساتھ افغان سرحد پر بھی قبضہ کیا ہے اور زمینی امداد اور اپنے مخالفین کے فرار کا راستہ پہلے سے بند کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ تخار میں رہنے والے افراد کی زندگیوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ طالبان دور کی پابندیاں لوٹ آئی ہیں اور ہر سمت خوف کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی نے تخار کے مکینوں سے طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں معمولات زندگی پر بات کی ہے۔

تخار کے مکینوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ طالبان نے مساجد میں دیے گئے خطبوں میں کہا ہے کہ لڑکیاں چھٹی جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں جبکہ لڑکوں، لڑکیوں کے سکول اور یونیورسٹیز بھی الگ الگ ہونی چاہییں۔

دوسری جانب تخار افغان فوج کے لیے افرادی قوت کے مہیا کرنے کا ایک اہم مرکز ہے۔ اگر تخار پر طالبان کا قبضہ ہو جاتا ہے تو اس سے تخار سے تعلق رکھنے والے ان ہزاروں افغان فوجیوں کے اہل خانہ طالبان کے قبضہ میں آجائیں گے جو اب افغان فورسز کی صفوں میں طالبان کے خلاف ملک ہم محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔

ایسے میں ان فوجیوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تحفظ کی خاطر فوج سے راہ فرار اختیار کر کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔

تخار کی ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں اکثر آبادی کا تعلق تاجک اور ازبک قوم سے ہے جبکہ پشون فقط ایک یا دو فیصد سے زیاد نہیں ہیں۔

نوے کی دہائی میں طالبان کی یہاں پر شکستوں کی وجہ یہ تھی کہ اس کے جنگجوؤں کا تعلق جنوب اور مشرقی افغانستان کے پشتون قبائل سے تھا۔

ان پچھلی دو دہائیوں میں دیگر شمالی علاقوں کی طرح تخار میں بھی مقامی افراد نے طالبان کے صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے جس کی وجہ سے ان کو اس علاقہ سے بخوبی واقفیت ہے اور یہی طالبان کی جنگ کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

یہی وہ اہم نقطہ ہے جس سے حکومت اور شمالی اتحاد کو تخار میں اب مشکلات کا سامنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا