طالبان کی واپسی: کیا افغانستان کا ثقافتی ورثہ پھر خطرے میں ہے؟

اس بار طالبان کا رویہ بدلا ہوا نظر آتا ہے، اور انہوں نے تاریخی نوادرات کی حفاظت کا حکم دیا ہے، لیکن کیا اس پر عمل ہو پائے گا؟

طالبان نے 2001 میں بامیان کے تاریخی مجسموں کو مسمار کر دیا تھا (Françoise Foliot - CC BY-SA 4.0)

افغانستان گذشتہ کئی ہزار سال سے اہم تجارتی راستہ رہا ہے، ساتویں صدی میں اسلام کی آمد سے قبل یہاں بدھ مت، زرتشت، مسیحیت، یہودیت اور ہندو مت نے فروغ پایا۔

شاہراہ ریشم افغانستان کو چین اور ایران سے ملاتی ہے۔ اس شاہراہ کے ارد گرد ماضی کی تہذیبوں کے آثار جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ انہی میں دارالحکومت کابل سے 130 کلومیٹر مغرب میں بامیان شہر بھی ہے جہاں پہاڑوں کو کھود کر گوتم بدھ کے دو نایاب اور بلند قامت مجسمے صدیوں سے کھڑے ہیں۔ مشرقی سمت والے بدھ کے مجسمے کی اونچائی 38 میٹر ہے اور ایک اندازے کے مطابق اسے سنہ 570 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا، جبکہ مغربی سمت والے بدھا کی مجسمے کی اونچائی 55 میٹر ہے اور وہ 618 میں بنا تھا۔

26 فروری 2001 کو طالبان کے امیر ملا محمد عمر نے مجلس شوریٰ سے رابطہ کر کے ایک فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان سے تمام بت اور غیر مسلموں کے دور کے آثار مٹا دیے جائیں۔ انہی میں بامیان کے یہ دو مجسمے بھی شامل تھے۔ جب ملا عمر نے ان مجسموں کے تباہ کرنے کا حکم نامہ دیا تو دنیا کے کئی ممالک جن میں مسلمان ممالک بھی شامل تھے ان سے ایسا نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

اس وقت کے پاکستان کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر بھی ایک وفد لے کر قندھار گئے مگر ملا عمر نے کہا کہ وہ علما کے فیصلے پر عمل در آمد کو روکنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی ہر حربہ آزمایا کہ یہ عالمی ورثہ ہے جسے تباہ کرنا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی مگر طالبان نے کسی کی نہ مانی۔

حتیٰ کہ یونیسکو نے کہا کہ ان مجسموں کو بدھ مذہب کے ماننے والے ممالک مثلاً تھائی لینڈ، سری لنکا یا قریبی ملک ایران منتقل کر دیا جائے اور اگر طالبان چاہتے ہیں تو وہ ان مجسموں کو قیمتاً بھی خرید سکتے ہیں، مگر طالبان نے کوئی دلیل نہیں مانی۔ 14 مارچ کو طالبان کے ترجمان نے اعلان کیا کہ بامیان کو ان دیو قامت مجسموں سے پاک کر دیا جائے۔ امیر کا حکم ملتے ہی طالبان نے گولہ بارود، راکٹ اور ٹینکوں کے دہانے کھول دیے۔ بامیان میں ان تاریخی مجسموں کی بربادی کا منظر پوری دنیا نے دیکھا۔ 26 مارچ کو صحافیوں کو بامیان بلا کر دکھایا گیا جس جگہ مجسمے ایستادہ تھے اب وہ جگہ خالی پڑی تھی۔ ہزاروں سال کا تاریخی ورثہ کو طالبان نے شرک قرار دے کر ختم کر ڈالا اور دلیل یہ دی کہ چونکہ افغانستان میں بدھ مت کا ماننے والا کوئی نہیں ہے اس لیے ان بتوں کو قائم رکھنے کا اب کوئی جواز نہیں ہے۔

جب بامیان میں بدھ کے مجسموں کو توڑا گیا تو اس وقت بامیان کے گورنر مولوی محمد اسلام محمدی تھے۔ وہ 2005 میں افغان پارلیمنٹ کے رکن بن گئے۔ اس وقت انہوں نے بتایا کہ بدھا کے مجسموں کو توڑنے کے لیے طالبان پر القاعدہ کا دباؤ تھا۔ جنوری 2007 میں مولوی اسلام محمدی کو کابل میں قتل کر دیا گیا۔

یونیسکو نے 17 اکتوبر 2003 کو ایک ڈیکلریشن جاری کیا جس کے تحت عالمی ثقافتی ورثے کو تباہ کرنے کا عمل جنگی جرم قرار دے دیا گیا۔ اسی سال یونیسکو نے بامیان کی وادی میں موجود بدھ آثار کو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی بحالی کا ایک جامع پلان مرتب کیا۔ جس کے تحت 2.7 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تباہ ہونے والے بدھ کے مجسموں کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ 15 سال کی انتھک محنت کے بعد مشرقی سمت والے بدھ کے مجسمے کا بحال کرنے میں کامیابی ہوئی۔ جبکہ مغربی سمت والے بدھ کی بحالی کا کام ہنوز جاری ہے۔

اب جبکہ طالبان نے کابل، ہرات اور قندھار سمیت تمام اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے تو ایک بار پھر افغانستان میں عالمی ثقافتی ورثے کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، جس پر دنیا کے مختلف حصوں میں فکرمندی ظاہر کی جا رہی ہے۔ 

جاپان، جہاں بدھ کی بہت تکریم کی جاتی ہے، بامیان کے مجسموں کے مستقبل پر بہت تشویش پائی جاتی ہے۔

جاپانی براڈکاسٹر این ایچ کے کے مطابق ٹوکیو یونیورسٹی آف دی آرٹس کے پروفیسر مائیدا کوساکو اور دوسرے تحقیق کاروں نے پیر کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں دنیا کو افغانستان کے ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

لیکن صرف بامیان ہی نہیں، پورا افغانستان تاریخی ورثے سے اٹا پڑا ہے۔ صرف کابل میوزیم میں 80 ہزار نوادرات موجود ہیں۔ افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہرات جسے افغانستان کا ثقافتی دارالحکومت کہا جاتا ہے، صرف وہیں 830 ایسی جگہیں ہیں جنہیں ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض سکندر اعظم کے دور یعنی 330 قبل مسیح کی ہیں۔ ہرات میں یہودیوں کی قدیم عبادت گاہ اور قبرستان بھی موجود ہے جن کے بارے میں عالمی برادری مسلسل فکر مند ہے۔

البتہ اس بار طالبان کا رویہ بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سال فروری میں انہوں نے اپنے حامیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ تمام تاریخی نوادرات اور مقامات کی سختی سے حفاظت کریں اور ہر طرح کی غیرقانونی کھدائی رکوا دیں۔

اس کے علاوہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سری لنکا کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ طالبان سے بامیان میں بدھ مت کے آثار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم طالبان کے گذشتہ دور حکومت میں افغانستان سے غیر قانونی کھدائیاں انہی کی سرپرستی میں ہوتی رہی ہیں۔ انٹرپول کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر سال جو نوادرات چوری ہو کر عالمی مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں ان کی مالیت پانچ ارب ڈالر ہے اور اس کا بڑا حصہ دہشت گردی کے فروغ میں استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 11 ستمبر کو ہائی جیکر محمد عطا جس نے طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا تھا، اس نے اس مقصد کے لیے رقم افغانستان کے نوادرات جرمنی میں بیچ کر حاصل کی تھی۔ اس بات کا انکشاف جرمنی کے مشہور میگزین دیر شپیگل نے اپنی 2005 کی اشاعت میں کیا تھا۔

کابل کے نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر محمد فہیم رحیمی نے نیشنل جیوگرافک میگزین کو بتایا کہ ’ہمیں اپنے عملے اور نوادرات کے تحفظ کی سخت فکر ہے۔‘

جب کہ کابل میں انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی کے سربراہ نور آغا نوری نے کہا کہ وہ ہرات اور قندھار سے تاریخی نوادرات کابل منتقل کرنا چاہتے تھے، لیکن افغان حکومت کے تیز رفتار انہدام سے انہیں اس کا موقع نہیں ملا۔

افغان میوزیم کے کیوریٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’آرٹ نیوز پیپر‘ نامی رسالے کو انٹرویو دیا ہے جس میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا بامیان میں بدھ کے مجسموں کو دوبارہ خطرہ درپیش ہے تو انہوں نے جواب میں کہا، ’کیا تیندوے اپنی کھال کے دھبے بدل سکتے ہیں؟ صرف ان کی کمان کی ساخت پر نظر ڈالیں، آپ کو پتہ چل جائے گا 2001 کے بعد سے کچھ نہیں بدلا، بلکہ حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ