طالبان: تب اور اب

جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تب دنیا ’یونی پولر‘ تھی۔ آج جب امریکہ جا رہا ہے، اس خطے میں نئی صف بندی نمایاں ہو چکی ہے۔

17 اگست کو طالبان جنگجو کابل کے کوٹے سنگی کے علاقے میں گشت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں

 

20 سال میں بہت کچھ بدل چکا۔ جس رات ملا عمر کو قندھار چھوڑنا پڑا، وہ دنیا اور تھی، آج جب طالبان کابل میں داخل ہو چکے، یہ دنیا اور ہے۔ تب اور اب کا یہ فرق جانے بغیر خواہش کو خبر تو بنایا جا سکتا ہے، حالات کا معروضی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔

پہلا فرق یہ ہے کہ جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تب دنیا ’یونی پولر‘ تھی اور امریکہ کا فرمایا مستند تھا۔ آج جب امریکہ جا رہا ہے، کم از کم اس خطے میں، نئی صف بندی نمایاں ہو چکی ہے۔ اب یہاں چین اور روس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحرک ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خطے میں انہیں نظر انداز کر کے کوئی بندو بست قائم کیا جا سکے۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ اس وقت طالبان سفارتی تنہائی کا شکار تھے اور عالم یہ تھا کہ کابل پر قبضے کے باوجود دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ آج وہ تنہا نہیں ہیں۔ مقامی قوتوں کے ساتھ ان کے اشتراک کار کے ایک سے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر یہ دونوں ملک طالبان کی حکومت کو چند شرائط کے ساتھ تسلیم کر لیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ چین اور روس ہی نہیں، موجودہ بندوبست میں خود امریکہ اور مغربی ممالک بھی انہیں تسلیم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس بار وہ اچانک اٹھ کر کابل نہیں آ گئے بلکہ اس کے پیچھے خود امریکہ سے ہونے والے مذاکرات بھی کارفرما نظر آتے ہیں۔

تیسرا فرق یہ ہے کہ ماضی میں طالبان اچانک اٹھے تھے اور افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہو گئے تھے۔ اس بار وہ ایک کثیر الجہتی سفارت کاری کے بعد کابل کی طرف بڑھے ہیں۔ ان کی حیثیت محض ایک مزاحمت کار کی نہیں رہی بلکہ خود امریکہ نے انہیں مستقبل کے افغانستان کا ممکنہ حکمران سمجھ کر ان سے مذاکرات کیے ہیں۔ طالبان اگر اتنے ہی نامطلوب تھے تو امریکہ ان سے مذاکرات کیوں کرتا رہا؟ یاد رہے کہ امریکہ نے محض مذاکرات نہیں کیے بلکہ افغاان حکومت کو ایک طرف رکھ کر براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ اس کا کیا مطلب تھا؟

امریکہ نے اگر ایک خاموش رات کو چپکے سے افغانستان سے نکل ہی جانا تھا تو دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کس بات پر ہو رہے تھے؟ یہ یقیناً افغانستان کے آئندہ منظر نامے کے بارے میں ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہی ساتھ مقامی قوتوں یعنی چین اور روس کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا تھا۔ ایک عالمی قوت جب کسی گروہ سے براہ راست مذاکرات کر کے مستقبل کی صورت گری کرتی ہے تو کیا یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے؟ یہ اطراف کو ایک پیغام ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ سے معاملہ کر رہے ہیں، باقی علاقوں کے رہنے والے اپنے اپنے مقامی وقت کے مطابق تدبیر کر لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چوتھا فرق مزاحمت کا ہے۔ 90 کی دہائی میں طالبان آئے تھے تو دوستم، احمد شاہ مسعود وغیرہ نے مزاحمت کی تھی۔ اب کی بار تو طالبان مخالف وار لارڈز حکومت کا حصہ تھے، ان کے پاس اسلحہ بھی وافر تھا، امریکہ کے وسائل پر تیار کی گئی ایک تربیت یافتہ فوج بھی تھی۔ اس کے باوجود مزاحمت نہیں ہوئی۔ کیوں؟ کیا دوحہ میں ہونے والے طالبان امریکہ مذاکرات کے علاوہ اس سوال کا کوئی جواب ہو سکتا ہے؟

امریکہ جا رہا تھا اور افغانستان میں خلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ اس صورت میں خانہ جنگی ہوتی جو مقامی قوتوں، یعنی چین اور روس وغیرہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ اب اس خلا کو طالبان ہی بھر سکتے تھے جن کی قوت کو امریکہ 20 سالوں میں بھی ختم نہیں کر سکا۔

چنانچہ امکان یہی ہے کہ کچھ ضمانتیں لے کر انہیں موقع دیا گیا اور ان کے لیے آسانی پیدا کی گئی۔  مغرب بھی جانتا ہے کہ طالبان کا ایجنڈا کبھی بھی بین الاقوامی نہیں رہا۔ القاعدہ کا معاملہ الگ ہے اور امریکہ کے خیال میں اس سے نبٹا جا چکا ہے۔ سر دست طالبان کی یہ ضمانت کافی ہو سکتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ وغیرہ کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

چنانچہ دیکھ لیجیے مغرب صرف ’طالبان سپیڈ‘ پر حیران ہے کہ اتنا جلدی وہ کابل کیسے پہنچ گئے، انہیں تو کم از کم چھ ماہ بعد پہنچنا چاہیے تھا۔ گویا مدت کی حیرت ہے، ان کا پہنچنا طے شدہ تھا۔ اشرف غنی کو یہ اعتماد کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ مزے سے طالبان کو صدارتی محل مدعو کر خوش آمدید کہہ رہے تھے اور انہیں یقین تھا انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور وہ ملک چھوڑنا چاہیں گے تو طالبان نہ انہیں روکیں گے نہ ان کے ہمراہ تشریف لے جانے والے ڈالروں کو۔

پانچواں فرق طالبان کے رویے کا ہے۔ پہلے وہ میڈیا سے دور رہتے تھے۔ اس بار میڈیا ان کا ہتھیار ہے اور وہ لمحہ لمحہ دنیا کو باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک جتھے کی بجائے ان کا تاثر ایک منظم فوج کا ہے۔ جذبات سے نہیں وہ ڈسپلن سے کام لے رہے ہیں۔ قتل و غارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اسماعیل خان جیسے مخالف کو امان دی گئی ہے۔ ڈاکٹر نجیب کی طرح کسی کو ٹینک سے نہیں لٹکایا گیا۔ خواتین کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اب پہلے والا معاملہ نہیں ہو گا آپ پریشان نہ ہوں اور کام جاری رکھیں۔ یہ تبدیلی اس بات کا اعتراف ہے کہ طالبان دنیا کی حساسیت کا احترام کر رہے ہیں اور ان کے رویوں میں ارتقا ہوا ہے۔

طالبان سرکاری ملازمین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ گویا وہ انقلاب کی بجائے ارتقا کا تاثر دے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں کون دے گا؟ کیا طالبان کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں؟ اور امریکہ نے جو کچھ عرصے کے لیے افغانستان کی محدود امداد جاری رکھنے کا وعدہ کیا تھا کیا طالبان حکومت کوو ہ امداد دی جائے گی؟ دی جائے گی تو شرائط کیا ہوں گی؟ طالبان معاشی پہلو سے بے نیازی برتیں گے تو مالی مسائل کا ایک طوفان ہے اور اگر وہ اس مسئلے میں رغبت دکھائیں گے تو امریکی شرائط دن بدن بڑھتی جائیں گے ( ایف اے ٹی ایف کا ہمارا تجربہ ہی دیکھ لیجیے)۔ دیکھنا ہو گا کہ طالبان اس میں توازن کیسے رکھ پاتے ہیں اور کیا خطے کی کوئی اور قوت انہیں مالی معاونت فراہم کر پاتی ہے؟

پڑوسی ممالک کو محفوظ راہداری فراہم کرنے کی شکل میں طالبان کے پاس واحد معاشی آپشن ہے لیکن اگر آگے چل کر طالبان کے خلاف مزاحمت شروع کر دی جاتی ہے تو یہ آپشن بھی ختم ہو جائے گا۔ افغان وار لارڈ آگے پیچھے ضرور ہو گئے ہیں لیکن ان کی قوت موجود ہے۔ وقت آنے پر انہیں سرپرست بھی دستیاب ہوں گے اور بھی سرپرستوں کو دستیاب ہوں گے۔

طالبان اب ایک امتحان گاہ میں ہیں۔ با معنی شراکت اقتدار کو یقینی بنا سکے اور دنیا کے ساتھ چل سکے تو امکان موجود ہے کہ ان کے اقتدار کو تسلیم کر لیا جائے۔ اب کی بار انہیں تسلیم کرنے کا فیصلہ بھی شاید عالمی برادری میں اجتماعی طور ہی ممکن ہو سکے گا یا کم از کم کوئی ایک بلاک انہیں تسلیم کرے گا جیسے روس چین ترکی ایران اور ان کے ساتھ پاکستان وغیرہ۔ انفرادی سطح پر سکی ملک کے لیے یہ بوجھ اٹھانا فی الوقت ممکن نظر نہیں آ رہا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ