امید ہے طالبان ماضی کے تجربات نہیں دہرائیں گے: افغان عوام

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں کے عوام فی الحال کشمکش میں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ آنے والے کل میں کیا ہوگا، لیکن ساتھ ہی وہ طالبان سے یہ امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ماضی کے تجربات دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں کے عوام فی الحال کشمکش میں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ آنے والے کل میں کیا ہوگا، لیکن ساتھ ہی وہ طالبان سے یہ امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ماضی کے تجربات دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے کابل میں مقیم ایک طالب علم پرویز خان اور ایک صحافی حکمت صافی سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ افغانستان کے اندر کیا حالات ہیں۔

صحافی حکمت صافی کا کہنا تھا کہ ’کل کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہونے جارہا ہے کیونکہ افغانستان کی سیاسی صورت حال ہمیشہ اسی طرح رہی ہے کہ کوئی حکومت مستحکم نہیں ہوسکی جبکہ گذشتہ دو برس میں جتنے بھی تجزیے تھے وہ غلط ثابت ہوگئے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ افغان حکومت مستحکم ہو جائے گی اور یہاں زندگی رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑےگا، دنیا کے ساتھ چلنا پڑے گا، جدید طرز تعلیم پر توجہ دینی پڑے گی اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا پڑے گا۔ فی الحال تو انہوں نے خواتین کی تعلیم کی اجازت دی ہے لیکن اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کچھ روز کے بعد ہی معلوم ہوگا۔‘

حکمت صافی نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان افغانستان میں ایک ایسی حکومت بنائیں گے، جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شراکت ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’کابل میں حالت بہت بہتر ہیں اور لوگ اپنے کام پر جا رہے ہیں۔ طالبان نے تمام شعبوں میں کام کرنے والوں کو بتایا ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں جاکر کام کریں۔ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔حالات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں اور افغان نارمل زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘

دوسری جانب کابل میں مقیم طالب علم پرویز خان سمجھتے ہیں کہ طالبان کے آنے سے زندگی رک سی گئی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’افغانستان میں زندگی روں دواں تھی۔ سکول، کالجز، ہسپتال، شاپنگ سینٹرز سب کھلے تھے۔ طالبان کے آنے کے بعد سے فی الحال زندگی ایسے جیسے رک سی گئی ہے۔ شہر میں بندوقیں لیے طالبان پھرتے ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وزیر کون ہے، گورنر کون ہے، عوام کا نمائندہ کون ہے؟ جمہوریت ختم ہونے کے بعد طالبان کی اسلامی حکومت میں مجھ سمیت تمام لوگوں کو امید ہے کہ یہ عوام کو انصاف دیں گے۔‘

ساتھ ہی پرویز نے بتایا: ’طالبان نئی نسل کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں گے اور امید ہے کہ وہ ماضی کے تجربات دوبارہ نہیں دہرایں گے۔‘

انہیں یہ بھی امید ہے کہ یہ حکومت تعلیم کی سہولیات کے ساتھ ساتھ  روزگار کی سہولیات بھی فراہم کرے گی۔ ساتھ ہی پرویز نے مشورہ دیا: ’طالبان کو دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ امید ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بہتری کے لیے کام کریں گے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اچھی پوزیشن بنائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا