پوری نہ ہونے والی جنسی خواہشوں کے خلاف ایف آئی آر

بچپن میں جو کچھ پہننے پر بچے کو ٹوکا گیا ہوتا ہے، بڑے ہو کر زیادہ دلچسپی بھی انہی پہناووں میں لیتا ہے۔جن کے شوق کم عمری میں پورے ہو گئے جواں سالی میں وہ اس سے بے نیاز ہو گئے۔

 سرہانے پانی کا جگ نہ ہو تو وقت بے وقت کی پیاس ستانے لگتی ہے۔ پانی کا جگ رکھا ہو تو اول پیاس لگتی نہیں ہے۔ لگ بھی جائے تو رسیاں توڑ کر باہر نہیں آتی!(اے ایف پی)

کراچی میں میٹرک کے طالب علم نمروز اور صبا گہرے تعلق میں بندھ گئے تھے۔ دونوں کا مسلکی پس منظر دو مختلف مکاتب فکر سے تھا۔ انہیں یقین تھا کہ والدین ہمارے تعلق کو کوئی قانونی شکل دینے پر کسی صورت رضامند نہیں ہوں گے۔ منصوبے کے مطابق دونوں ایک صبح سکول پہنچے۔ لڑکے نے بستے سے پستول نکالی۔ پہلے لڑکی کے سر پر رکھی،پھر اپنی کنپٹی پر رکھی اور یوں دو پھول بن کھلے مرجھا گئے۔ ایک سماجی رہنما سے کسی نے اس واقعے پر رائے مانگی۔ فرمایا، یہ سب مخلوط نظام تعلیم کا کیا دھرا ہے!

فیصل آباد کے ایک مدرسے میں آٹھ سالہ طالب علم عمران کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاگیااور برہنہ حالت میں بالائی منزل سے دھکیل دیا گیا۔ ایک صحافی نے بھری محفل میں لاہور کے ایک بزرگ عالم دین سے پوچھا، آپ کیا کہیں گے؟فرمایا، جب فحش فلمیں دکھائی جائیں گی اور بے پردہ خواتین کے اشتہار شاہراہوں پر لگاجائیں گے تو ظاہر ہے لوگوں میں جنسی ہیجان توپیدا ہوگا۔ نتیجتاً ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا!

قصور میں زینب نامی ایک بچی لاپتہ ہوگئی۔ کچھ دن بعد کچرا کونڈی سے زینب کی لاش ملی۔ پتہ چلا کہ اول اس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاگیا، پھر قتل کردیا گیا۔ اینکر نے اپنے جوڑی داردانشور سے پوچھا، آپ کیا کہیں گے؟ فرمایا، ماضی میں ایسے واقعات میں ملوث لوگوں کو اگر پھانسیاں دی گئی ہوتیں تو آج یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔

اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد سے فرشتہ نامی بچی اغوا ہوئی۔ 15 روز بعد اس کی لاش ملی۔ مبینہ طور پر بچی کے ہی چچازاد نے اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا بعد ازاں قتل کر دیا۔ سوشل میڈیا پر الہام طبع ایکٹوسٹ اس بات پر تقریباً متفق پائے جارہے ہیں کہ زینب کے قاتل کو محض پھانسی دینا کافی نہیں تھا۔اس کو اگر سر عام پھانسی دے دی گئی ہوتی تو آج فرشتہ زندہ ہوتی۔

فرض کیجیے فرشتہ کے قاتل کو اگلے ماہ ڈی چوک پر پھانسی دے دی جاتی ہے۔ پھانسی کے ٹھیک دس دن بعد ریپ کا ایک واقعہ ہوتا ہے تو ثنا خوانِ تقدیس مشرق کا تجزیہ کیا ہو گا؟ پچھلے واقعات کے بعد جس بحر میں غزلیں کہی گئی ہیں، مجھ جیسا کند ذہن شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگلی غزل کا مطلع کیا ہو گا۔اسباب کے خانے میں تو وہی انڈین فلمیں، فحش اشتہارات، بے پردگی، مخلوط نظامِ تعلیم وغیرہ لکھ دیا جائے گا۔ سدِباب میں ٹانگ دو اور لٹکا دو والی گردان آجائے گی۔

ساتھ یہ گرہ ضرور لگادی جائے گی کہ پچھلے والے ریپسٹ کی سر عام پھانسی کافی نہیں تھی۔اس کی تکہ بوٹی کرکے اگر مارگلہ کی پہاڑیوں پہ اقبال کے کسی شاہین کے آگے ڈال دیا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہوتا۔

ہمیں کچھ سوالات پر غور کرنا ہے۔ جن ممالک میں پورن دیکھنے پر قدغن نہیں ہے، ان ممالک میں پورن دیکھنے کا رجحان کم کیوں ہے؟ پاکستان جیسا ملک، جہاں پورن سائٹس پر نہ صرف یہ کہ بندشیں عائد ہیں بلکہ سائبر سپیس پر ان سائٹس تک پہنچنے کے لیے ناگمان سے گھوم کر آنا پڑتا ہے، وہاں پورن دیکھنے کا رجحان غالب کیوں ہے؟

جن ممالک میں خواتین نیم عریاں، کبھی پون عریاں اور ساحلوں پر غسلِ آفتابی کے لیے پوری عریاں ہوتی ہیں وہاں طبعیت میں بے انت جنسی ہیجان پیدا کیوں نہیں ہوتا؟

جن ممالک میں کہیں پردہ لازم اور کہیں اختیاری ہے، وہاں صرف کلائی اور ایڑی دیکھ کرہی خاکستر میں شعلہ کیوں بھڑک اٹھتا ہے؟ جن ممالک میں مخلوط طور پر تعلیمی ، سیاسی، ادبی اور دیگر سماجی سرگرمیاں انجام دینا شعوری طور پر درست تسلیم کیا جاتا ہے، وہاں اکیلی لڑکی بھی خود کو ہراساں محسوس کیوں نہیں کرتی؟ پاکستان جیسا ملک، جہاں خاندانی تقریبات میں بھی خواتین اور حضرات کے بیچ حدِ فاصل کھینچ دی جاتی ہے، وہاں ایک لڑکی اپنی ہمجولیوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی خوف کیوں محسوس کرتی ہے؟ اگر مذہبی تعلیم سے دوری جنسی بے راہ روی کی وجہ ہے تو عبادت گاہوں اور درس گاہوں سے شکایات کیوں آتی ہیں؟ اور یہ کہ مذہبی ترجیحات نہ رکھنے کے باوجود جو لوگ جنسی ناہمواریوں کا شکار نہیں ہیں وہ لوگ کہاں سے رہنمائی لے رہے ہیں؟

ہمارے والدین ا ور اساتذہ نے اپنے بچوں کو اخلاقی پستیوں سے بچانے کے لیے کچھ ضروری اقدامات کر رکھے ہوتے ہیں۔ ان اقدامات میں بنیادی حیثیت کڑی پابندیوں کوحاصل ہوتی ہے۔ بے وقت اور غیر ضروری پابندیوں سے جستجو اور محرومی کا احساس جنم لیتا ہے جو فرسٹریشن بن کر انسان کے داخل میں گھر بسا لیتا ہے۔ بچے کو جو کچھ دیکھنے سے روکا جاتا ہے، وہی کرنے کے لیے وہ منصوبہ سازی کرتا ہے۔ جو کرنے سے روکا جاتا ہے، اسی سے انترہ اٹھاتا ہے۔ فرمائش کے باجود جن بچوں کو کم عمری میں سائیکل نہیں دلائی گئی ہوتی، چڑھتی جوانی میں ان کے لیے لینڈ کروزر سے زیادہ اہمیت سائیکل اختیار کرلیتی ہے۔

بچپن میں جو کچھ پہننے پر بچے کو ٹوکا گیا ہوتا ہے، بڑے ہو کر زیادہ دلچسپی بھی انہی پہناووں میں لیتا ہے۔جن کے شوق کم عمری میں پورے ہو گئے جواں سالی میں وہ اس سے بے نیاز ہو گئے۔ نہ بھی ہوئے تو کم از کم شوق کی تکمیل میں ہر جائز اور ناجائز سے نہیں گزرے۔ مل گیا تو شکر مولا۔ نہ ملا تو ستے ای خیراں!

ایک وقت تھا والدین ٹی وی پر کچھ چینلز لاک کر دیے کرتے تھے۔ لاک شدہ چینل پر ایک نیلا پردہ نظر آتاتھا جس پر ایک کونے میں بنا ہوا تالا کہہ رہا ہوتا تھا کہ شاباش بیٹا آگے بڑھو۔ ایک بعد ایک بدلتے چینل کے بعد جونہی نیلے پردے والی یہ سکرین آتی تھی تو بچے کے کے لاشعور میں غالب کا مصرع زور کی انگڑائی لیتا تھا، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بڑے سمجھتے تھے نیلا پردہ بچوں کو بچا رہا ہے، سچ مگر یہ ہے کہ وہ جستجو کے مارے ذہن کو اکسا رہا ہوتا تھا۔ بچہ اول تو اپنے ننھے مشیروں کے ساتھ مشاورت کرتا کہ اس نیلے پردے کے پیچھے کے منظر تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ کچھ نہ بن پڑتا تو بچہ اپنے دوستوں کے ہاں جا کر وہ چینل دریافت کرتا جس پر نیلا مقفل پردہ پڑا ہوتا۔ اس چینل کو لاک نہ کیا جاتا تو شاید یہ بھی معمول کے کسی چینل کی طرح بچے کی آنکھ سے گزر جاتا۔

اسے پورے اہتمام کے ساتھ روکا گیا تو اس کے لیے وہ ایک چیلنج بن گیا۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کیفے کی روایت آئی تو چائے خانے خالی ہو گئے۔ اس سچ کو مان لینے میں کیا حرج ہے کہ غالب اکثریت کیفے میں وہی کچھ دیکھنے جاتی تھی جس سے کبھی غیر ضروری سختی کے ساتھ اسے روکا گیا ہوتا تھا۔

 سعودی شہریوں کے لیے بحرین ایک ایسی فضا ہے جہاں وہ ہر ویک اینڈ پر کھل کر سانس لیتے ہیں۔ جمعرات کی شام سیاحوں کی جو فوج ظفر موج بحرین کی طرف بڑھتی ہے ان میں خواتین کی تعداد بہت نمایاں ہوتی ہے۔ کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ خواتین کی اکثریت کے لیے بحرین میں سب سے بڑی عیاشی کیا رہی ہے؟ گاڑی چلانا۔ جی ہاں، رات بھر گاڑی ڈرائیو کرنا، چلتی گاڑی میں ہی چائے کافی پینا اور برگر کھانا ان کے لیے عشرت کا سب سے بڑا سامان رہا ہے۔

پاکستان میں بیٹھے ایک شخص کے لیے یہ بہت حیران کن اس لیے ہو سکتی ہے کہ ڈرائیونگ اس کے لیے بہت نارمل سا معاملہ ہے۔ سعودیہ میں رہنے والے شخص کے لیے اس میں حیرت کا کوئی پہلو اس لیے نہیں ہو سکتا کہ برسوں سے وہاں خواتین کو قانونی طور پر ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی۔ اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ جس دن سعودیہ میں یہ پابندی اٹھی تو خواتین ہوٹنگ کرتی ہوئی شاہراہوں پر اس طرح گاڑیاں دوڑائے جارہی تھیں جیسے قومی آزادی کاپہلا جشن منایا جار ہا ہو ۔

پہلی بار سینما گھر کے دروازے کھلنے پر وہاں جو خلقت ایک دوسرے کے کندھے پھلانگ کر ٹوٹ پڑی تھی اس کا تصور تیسری دنیا کا ہم جیسا ایک پسماندہ سماج بھی کر سکتا ہے؟

ہماری سیکشوئل فرسٹریشن کو اس پورے منظرنامے میں رکھ کر دیکھا جائے تو الجھی ہوئی کہانی کا سرا ہاتھ آسکتا ہے۔وہ کہانی، جو الجھی نہیں ہے بلکہ آپ الجھائی گئی ہے۔

 سرہانے پانی کا جگ نہ ہو تو وقت بے وقت کی پیاس ستانے لگتی ہے۔ پانی کا جگ رکھا ہو تو اول پیاس لگتی نہیں ہے۔ لگ بھی جائے تو رسیاں توڑ کر باہر نہیں آتی!

 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ