سوات کا منفرد گاؤں آریانی، جہاں سات زبانیں بولی جاتی ہیں

اس منفرد گاؤں میں سات مقامی زبانیں تو رائج ہیں ہی، ساتھ ہی ساتھ اردو بھی سمجھی جاتی ہے۔

آریانی اپنی زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوبصورت لینڈ سکیپ کی وجہ سے بھی ایک منفرد گاؤں ہے (سجاد اظہر)

یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ پاکستان میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جس کی آبادی تقریباً چھ ہزار ہے اور یہاں سات زبانیں بولی جاتی ہیں۔

جیسے ہی اسلام آباد واپس آنے کے لیے آپ کالام کی وادی کو چھوڑتے ہیں تو ایک تنگ سے درے کے بعد ایک اور حسین وادی آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔

دریائے سوات کے مغربی کنارے پر پشمال اور مشرقی کنارے پر پہاڑ کے دامن میں اوپر تلے چھوٹے چھوٹے زمین کے قطعے ہیں جہاں سبزیاں اور فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ انہی سرسبز اور شاداب کھیتوں میں آریانی کا منفرد قصبہ ہے جہاں بارہ سو کے قریب مکانات بھی کھیتوں کی طرح پہاڑ کے دامن تک ایک سیڑھی سی بنائے ہوئے ہیں۔ اوپر کوہ ہندو کش کا جاہ و جلال دیکھنے والا ہے جو دیار کے جنگلات سے مہک رہا ہے۔

آریانی میں جو سات زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں توروالی، گاوری، داچوا، کھوار، کشمیری، گوجری اور پشتو شامل ہیں جبکہ آٹھویں زبان اردو بھی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہاں لڑکوں کے تین اور لڑکیوں کا ایک پرائمری سکول ہے۔ پہاڑ کے دامن میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر 12 محلے پھیلے ہوئے جہاں نو مسجدیں بھی ہیں۔

یہاں کی سات زبانوں کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ کیا یہاں سات قبیلے آباد ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ الگ الگ مقامات سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوتے چلے گئے؟ کیا اس کے نام کی نسبت آرین سے ہے جو تقریباً 15ویں صدی قبل مسیح میں ہندوستان میں آکر آباد ہونا شروع ہوئے تھے؟ یہ اور ان جیسےکئی سوالات ہنوز تشنہ طلب ہیں۔

پاکستان میں کم و بیش 76 زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا سلسلہ ہند یورپی اور چینی تبتی زبانوں سے جا ملتا ہے۔ ان میں آریانی میں بولی جانے والی زبانوں کا تعلق بھی ہند یورپی سلسلے سے ہے۔

پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ماہر رازول کوہستانی کی ایک تحقیق کے مطابق گاوری زبان سوات اور دیر میں بولی جاتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد 86 ہزار ہے، داچوا بھی گاوری کا ہی ایک لہجہ ہے۔

کھوار چترال میں بولی جاتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد تین لاکھ ہے، کشمیری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں، توروالی کالام اور بحرین میں، گوجری چونکہ گجر قبائل کی زبان ہے جو اپنے جانوروں کے ساتھ پہاڑوں سے میدانی علاقوں کی جانب سفر کرتے رہتے ہیں اور یہ زبان بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، خیبر پختونخوا اور جہلم کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ جبکہ پشتو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں بولی جاتی ہے۔

 محمد زمان ساگر کی کتاب ’کالام کوہستان کی روایتی تاریخ‘ کے صفحہ 26 پر درج ہے کہ کالامی لوگوں کی اکثریت کی زبان گاؤری ہے جسے کوہستانی بھی کہا جاتا ہے۔ سنسکرت زبان کے گرامر دان پانینی نے اسے گاؤرائیوئی کہا ہے جبکہ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’رگ وید‘ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔

محمد زمان ساگر اسلام آباد میں علاقائی زبانوں پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے ’فورم فار لینگویج انیشیٹو‘ میں کنسلٹنٹ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آریانی میں سات زبانیں تو بولی جاتی ہیں مگر یہ تذکرہ اس وقت مشہور ہوا جب یہاں کے ایک مقامی شاعر مولوی عبد الحق نے ایک شعر کہا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’یہ سات زبانیں بولنے والوں کا گاؤں ہے مگر سچ بولنے والا کسی زبان میں ایک بھی نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایک ہزار سال پہلے سوات کے زیریں علاقے کے لوگ توروالی زبان بولتے تھے جب یہاں ایک بدھ راجہ گرا کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت اوڈی گرام تھا۔ محمود غزنوی نے اپنا ایک سپہ سالار راجہ گرا کے خلاف بھیجا جس نے راجہ گرا کو شکست دے دی۔ راجہ اور اس کے بیٹے کالام اور دیر کے پہاڑوں پر جا کر آباد ہو گئے۔ مقامی توروالی قبائل کے علاقوں پر افغانستان سے آنے والے حملہ آور قبضہ کر کے انہیں بھی اوپر پہاڑوں کی جانب دھکیلتے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر 15ویں صدی کے لگ بھگ یوسفزئی قبائل نے یہاں پر پہلے سے آباد افغان قبائل کو شکست دے کر انہیں بھی اوپر پہاڑوں کی جانب دھکیل دیا۔ اس طرح آریانی میں آ کر بسنے والوں کا تعلق سیاسی اور ماحولیاتی مسائل سے بنتا ہے۔ کالام میں بدھ مت کے دور کے نوادرات ملے ہیں لیکن ہزاروں سال پہلے یہاں ایک بہت بڑی جھیل تھی اور موجودہ کالام اس جھیل کے نیچے تھا۔ مقامی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ پھر یہ جھیل پھٹ گئی اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد آگے کے علاقوں میں کتنی بڑی تباہی ہوئی ہو گی۔

بحرین میں رہائش پذیر لسانیات و بشریات کے محقق زبیر توروالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوات کے مقامی لوگ تور والی تھے جن کا مذہب کیلاشی طرز کا تھا جو بعد میں بدھ اور پھر ہندو ہو گئے تھے اور آج مسلمان ہیں۔ کئی محققین نے ہندوکش، قراقرم اور مغربی ہمالیہ پر مشتمل آبادیوں کو ’داردستان‘ کا نام دیا ہےجو آریائی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور ایسی زبانیں بولتے ہیں جو کہ وادیٰ سندھ اور وادیٰ گنگا کے نشیبی علاقوں میں بولی جانے والی ہند آریائی زبانوں کی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم کئی لحاظ سے ان سے خاصی مختلف بھی ہیں۔

داردستان میں تقریباً 50 زبانیں اور ان کے مختلف لہجے بولے جاتے ہیں جن میں دیر، سوات، بونیر، شانگلہ، مانسہرہ، کوہستان اور کشمیر کے بالائی علاقے شامل ہیں۔ لیکن ان زبانوں کے بولنے والوں کی درست تعداد بتانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ اب تک کی چھ قومی مردم شماریوں میں ان زبانوں کو شامل نہیں کیا گیا سوائے پشتو اور ہندکو کے۔ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہے اور لاکھوں میں بھی۔ ان میں سے کئی زبانیں ایسی ہیں جو پاکستان کے پڑوسی ممالک افغانستان، چین، بھارت اور تاجکستان میں بھی بولی جاتی ہیں۔

آریانی اپنی زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوبصورت لینڈ سکیپ کی وجہ سے بھی ایک منفرد گاؤں ہے۔ لائی کوٹ سے آریانی تک کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کالام کے ساتھ ساتھ آریانی اور لائی کوٹ کو بھی سیاحتی مقام کی شکل دی جا سکتی ہے اور بلاشبہ آریانی اپنی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت زیادہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ