بلوچستان کی قدیم زبانیں خطرے میں

بلوچستان میں مختلف زبانیں جیسے بلوچی، پشتو، براہوی، سندھی، ہزارگی، سرائیکی بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ذریعہ تعلیم نہیں۔

(تصویر ہزار خان بلوچ)

عبدالکریم کو اس وقت خوش گوار حیرت کا سامنا ہوا، جب وہ بلوچستان کے ضلع زیارت کے ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے بازار میں کچھ غیر معمولی بات نوٹس کی جو انہیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ 

کریم نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ دکانوں کے سائن بورڈز پشتو زبان میں لکھے تھے۔ انہیں یہ بورڈز پڑھنےمیں دقت کا سامنا نہیں ہوا کیوں کہ وہ پشتو بولنے کے ساتھ ساتھ پڑھ اور لکھ بھی سکتے ہیں۔

’جہاں یہ ایک مثبت پیش رفت نظرآئی وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ (پشتو) زبان کو ہر ایک شخص پڑھنے سے قاصر ہے کیوں کہ ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم مادری زبان میں نہیں۔‘ 

صرف کریم نہیں بلکہ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی منازل طے کیں اس نے اپنا ذریعہ تعلیم مادری زبان کو ہی بنایا۔ 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج (21 فروری کو) مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو معدومی کی شکار زبانوں سے آگاہی اور ذریعہ تعلیم مادری زبان کو بنانے کےلیے متحرک کرنا ہے۔ 

بلوچستان میں مختلف زبانیں جیسے بلوچی، پشتو، براہوی، سندھی، ہزارگی، سرائیکی بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی تعلیم نہیں دی جاتی۔ 

صوبے میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے ایک نوجوان عطا اللہ زیرک گذشتہ 10 سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس مسئلے کا حل نکال لیا تو ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ 

عطا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی اپنی تحقیق اور جستجو کے مطابق دنیا میں کوئی بھی ایسی قوم نہیں جس نے کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی کی ہو۔ 

’ہماری تحریک کا مقصد یہی ہے کہ ہم یہاں اپنے ذریعہ تعلیم کو مادری زبانوں میں تبدیل کریں تاکہ وہ فوائد جو دنیا حاصل کر رہی ہے، ہم بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ چونکہ یہ ایک باقاعدہ عمل ہے، اس کو سیاسی نعرے کے ذریعے تبدیل کرنا مشکل ہے۔ ’جیسے ہم نے دیکھا کہ سابقہ ادوار میں منظور شدہ ایکٹ میں صرف ایک مضمون تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا۔‘ 

عطا اللہ کا ماننا ہے کہ اس اقدام نے صرف بچوں پر ایک اور کتاب کا بوجھ بڑھایا کیوں کہ وہ پہلے ہی دوسرے مضامین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جیسے کہ اردو، انگریزی اور عربی وغیرہ۔ 

وہ سمجھتے ہیں کہ مکمل ذریعہ تعلیم کو مادری زبان میں تبدیل کرنا ناممکن نہیں جس کا تجربہ ایتھوپیا، یوکرائن اور ملائیشیا میں کیا جا چکا ہے۔ 

’ہماری تحریک کا مقصد ہےکہ ہم باقاعدہ طور پر دو، تین سالوں میں مکمل نصاب کو مادری زبان میں تبدیل کر کے پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک اس کی فراہمی یقینی بنائیں۔‘ 

ادھر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مادری زبانوں کو ختم کرنے میں بہت سےعوامل شامل ہوتے ہیں، جن میں تعلیم نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بولنے والوں میں کمی بھی شامل ہے۔ 

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو فیکلٹی کے ممبر، پشتو اکیڈمی  کے فنانس سیکریٹری اور زبان کلچر انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر برکت شاہ بھی مادری زبان میں تعلیم کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ 

مادری زبان کا دن منانے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ 

ڈاکٹر برکت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زبانوں کی پالیسی اور منصوبہ بندی کا آغاز انیسویں صدی میں اس وقت ہوا جب فرانس نے سوچا کہ قومی ریاست کی زبان کیا ہونی چاہیے۔ ’اسی تحریک کے دوران برطانیہ، فرانس، پرتگال اور ہماری روایتی کالونائز ریاستوں نے ایک زبان کی ترویج کرتے ہوئے سینکڑوں زبانوں کا خاتمہ کر دیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ جب زبانوں کو ختم کرنے کا سلسلہ جاری تھا تو سکالرز کو تشویش ہوئی اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ کسی بھی زبان کو ختم کرنے سے اس کی تہذیب اور تاریخ کا خاتمہ ہو جاتا ہے، ایسے میں لوگ کسی طرح اپنی زندگی، حکمت اور تجربات سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 

ڈاکٹر برکت کے مطابق: اس کے بعد بیسویں صدی میں امریکہ اور روس نے لینگوئج پلان کی بات کی، انہوں نے کچھ زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینا شروع کیا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 60 سے زائد ممالک آزاد ہوئے، پھر یہ ہونا شروع ہوا کہ جس طرح ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ دسمبر 1947 میں ایک کانفرنس کے دوران 'اردو' کو غیر ادبی طور پر قومی زبان قرار دیا گیا۔ 

ڈاکٹر برکت کہتے ہیں کہ حالانکہ یہاں پر اردو سے زیادہ قدیم اور قد آور زبانیں موجود تھیں۔ اس فیصلے نے بھاشا اندولن یعنیٰ بنگالی زبان کی تحریک کو جنم دیا، جس کی بنیاد 1947 کے آخر تک پڑ چکی تھی۔ 

’اس دوران زبان کے تحفظ کے لیے جدوجہد شروع ہوئی اور ڈھاکہ میں ایک مظاہرے کے دوران کچھ طالب علموں کو مار دیا گیا۔ انہی کی یاد میں 21 فروری کو ہرسال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ یونیسکو نے کیا تھا۔‘

 

مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری؟ 

ڈاکٹر برکت کہتے ہیں کہ کسی بھی بچے کو مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان میں تعلیم دے کر کچھ بھی نہیں سکھایا جاسکتا۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی بچہ جس زبان میں سوچتا ہے، خواب دیکھتا ہے، اگر اس کے سیکھنے کے عمل کومتضاد کردیا جائے تو وہ ضرور ریٹیفکیشن کی طرف جائے گا۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس بچے کو تعلیم کو اپنی زندگی کے تجربات سے جوڑنا، معاشرتی تضادات کو حل کرنا ناممکن ہوگا۔ ’ہم 70 سالوں سے یہی تجربات کر رہے ہیں، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا، ہمارے پاس مادری زبان میں تعلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

بلوچستان میں مادری زبانوں کے حوالے سے قانون سازی  

ڈاکٹر برکت نے بتایا کہ بلوچستان میں مادری زبانوں کے حوالے سے جو قانون سازی ہوئی وہ نواب اکبر خان بگٹی کے دور 1989 کے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ہوئی۔  

اس دوران 500 اساتذہ کی تربیت کی گئی اور تیسری جماعت تک کتابیں نصاب میں شامل کی گئیں لیکن ان کا چونکہ دور مختصرتھا، بعد میں آنے والی تاج جمالی کی حکومت، جس کا دور 1990 سے 1993 تک رہا، نے اس سلسلے کو ختم کر دیا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبے خود قانون سازی کرسکتے ہیں لہٰذا پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی 2013 میں قائم ہونے والی حکومت نے مادری زبانوں کا ایک ایکٹ پاس کیا، جس میں پشتو، بلوچی، براہوی کے ساتھ ساتھ سندھی کو بھی شامل کیا گیا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ لیکن اس ایکٹ کے ذریعے نصاب میں صرف ایک مضمون کو شامل کیا گیا، اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

زبانوں کی معدومی کیا ہے؟ 

زبان کی معدومی اس کو کہتے ہیں کہ کسی زبان کی جگہ کوئی دوسری طاقت ور زبان لے لے۔ 

ڈاکٹر برکت کے مطابق: معدومی کو جانچنے کا فارمولا یہ ہے کہ دیکھیں اگر کسی گھر میں دادا، دادی، والد، والدہ اور بچے ہیں اور اگر دادا دادی ایک زبان بول رہے ہیں اور بیٹے اور نواسوں نے اس کو ترک کردیا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ یہ زبان مٹنے والی ہے۔ 

پاکستان میں زبانوں کو خطرات تو ہیں اور بلوچستان میں براہوی زبان، جو ایک قدیم زبان ہے، کے حوالے سے کچھ خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ زبانوں پر کام کرنے والے ڈاکٹر طارق رحمٰن کے مطابق: بلوچستان کی چار، پانچ زبانوں کے علاوہ جو چھوٹی زبانیں ہیں اگر ان میں تعلیم اور دیگر سرگرمیوں کا سلسلہ شروع نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ یہ زبانیں مٹ جائیں گی یا دور افتادہ گاؤں تک محدود ہوجائیں گی۔ 

مادری زبانوں کا تحفظ کیسے ممکن؟ 

ڈاکٹر برکت سمجھتے ہیں کہ مادری زبان کو خطرے کا مطلب ہے کہ کسی کی شناخت کو چھیننا، اس لیے ہمیں اس پر توجہ دینا ہوگی۔ ’معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں کو ریاست کے ثقافتی اور تعلیمی ادارے بچا سکتے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے جو طاقت ور زبانیں ہیں ان کو لگام دینا ہوگا۔ ’جس طرح ہم کہتے ہیں کہ درخت کاٹنے نہیں چاہییں، اسی طرح ہمیں زبانوں کے مٹنے کا بھی احساس کرنا ہوگا۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ سیاسی زعما اور قوم پرستوں کو ایک خاص قسم کا بیانیہ تھما دیا گیا ہے، اس کے علاوہ جو لوگ اسمبلیوں میں آ رہے ہیں، ان کی تعلیمی قابلیت خاص نہیں۔

جب ہم نے ایک سرکاری سکول کے استاد سے مادری زبانوں میں نصاب میں شامل مضمون کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تیسری جماعت تک مضمون شامل کیا گیا جو گذشتہ چار سال سے موجود ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو ایک مختصر تربیت دی گئی لیکن اس مضمون کو اب پڑھایا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی باقاعدہ استاد تعینات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نصاب میں شامل مادری زبان کی کتاب کا کوئی فائدہ اور نتیجہ نہیں نکل رہا۔  

دوسری جانب مادری زبان کو نصاب میں شامل کرنےکے لیے جدوجہد اور اسمبلی میں ایکٹ کو پاس کرنے والے متحرک رہنما نصراللہ زیرے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوشش کے باوجود اس کام پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ 

پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اس حوالے سے بڑی جدوجہد کی اور قانون پاس کیا۔ ’ہم نے ایکٹ پاس کرکے اسے لازمی مضمون کے طور پرنصاب میں شامل کروایا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر موجودہ حکومت میں کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘ 

زبانوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق: مادری زبان ہی کسی قوم کی شناخت اور تاریخ کا مظہر ہوتی ہے، اگر اس کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو اس قوم کی تہذیب تاریخ مٹنے والی ہوتی ہے، جس کا تحفظ ہر باشعور فرد کا فرض ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان