’پاکستان کی اشرافیہ مادری زبانوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے‘

اسلام آباد میں جاری مادری زبانوں کے ادبی میلے میں ایک مباحثے کے شرکا نے کہا کہ آزادی کے بعد ہر دور میں یہاں سمجھی اور بولی جانے والی ماں بولیوں کی سرکاری طور پر حوصلہ شکنی کی گئی۔

پاکستان کی اشرافیہ مادری زبانوں کے حوالے سے ہمیشہ خوف میں مبتلا رہی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے: آئی اے رحمٰن (تصویر ٹوئٹر سسی پلیجو)

پاکستان کی اشرافیہ ملک میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور اسی لیے آزادی کے بعد ہر دور میں یہاں سمجھی اور بولی جانے والی ماں بولیوں کی سرکاری طور پر حوصلہ شکنی کی گئی۔

یہ کہنا تھا پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں جاری مادری زبانوں کے ادبی میلے میں ایک مباحثے کے شرکا کا۔

’آئین اور مادری زبانوں کا تحفظ‘ کے عنوان سے منعقدہ مباحثے کا پینل امن اور انسانی حقوق کے وکیل ابنِ عبدالرحمٰن المعروف آئی اے رحمٰن، صوبہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، لکھاری اور محقق سینیٹر افراسیاب خٹک، پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسّی پلیجواور صحافی زبیدہ مصطفیٰ پر مشتمل تھا۔

جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے منسوب مباحثے کی نظامت کے فرائض صحافی ظفراللہ خان نے انجام دیے۔

اس موقعے پر بات کرتے ہوئے آئی اے رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کی اشرافیہ مادری زبانوں کے حوالے سے ہمیشہ خوف میں مبتلا رہی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

ان کے خیال میں پاکستانی اشرافیہ مادری زبانوں کو ترقی دے کر معاشرے کے نچلے طبقوں کو اپنے برابر نہیں لانا چاہتی۔

’مادری زبانوں کی ترقی اور ترویج سے معاشرے کے ہر طبقے خصوصاً معاشی طور پر محروم لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا ہوتی ہے اور اسی سے ہماری اشرافیہ ڈرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ کوئی چپڑاسی بھی صاحب سے پنجابی یا کسی بھی مادری زبان میں بات کرے یا ان سے سوال پوچھ سکے۔‘

افراسیاب خٹک نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا پاکستان میں بولی جانے والی مادری زبانوں میں کوئی تنازع نہیں بلکہ آمرانہ قوتیں ملک کی عوام سے تصادم میں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں خود کو بلوچ، پنجابی، سندھی، سرائیکی یا پشتون کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔’ پاکستانی کے علاوہ اپنے آپ کو کچھ بھی کہہ دینے سے آپ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کو ترقی دے کر پاکستان کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور دنیا کی کئی اقوام نے یہ تجزبہ کیا ہے اور انہیں کامیابی ہوئی ہے۔

’پاکستان اسلام آباد کا نہیں بلکہ چار صوبوں پر مشتمل ہے۔ ان صوبوں اور وہاں بولی جانے والی زبانوں کو مضبوط بنا کر آپ پاکستانی فیڈریشن کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔‘

سینیٹر سسّی پلیجو نے کہا تمام زبانیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ اردو بھی ایک خوبصارت زبان ہے۔ تاہم جذبات کا اظہار صحیح طریقے سے صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا اردو پاکستانیوں کے لیے رابطے کی زبان ہے اور باقی تمام ماں بولیوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔

جمہوریت

افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاکستان میں زبانوں کی کہانی بھی دراصل جمہوریت کی کہانی ہے۔ ’جس طرح اس ملک میں لوگوں کے جمہوری حقوق چھینے گئے ہیں۔ اسی طرح زبانوں کے حقوق بھی ہڑپ کیے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا: کسی بھی جمہوری معاشرے میں فوجی یا سول ملازمین کو عوام کے منتخب نمائندوں کا احترام کرنا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں اور جو کام کرتے ہیں اس کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹرعبدالمالک کا کہنا تھا کہ جس ملک کی جمہوری تاریخ خود شاندار نہ ہو اس کی آئینی تاریخ بھی داغدار ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہر پاکستانی کا جمہوری حق ہے لیکن یہاں مادری زبان کا ذکر کریں تو کہا جاتا ہے کہ آپ ملک توڑنے کیا باتیں کر رہے ہیں۔

آئی اے رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کی مادری زبانوں کو صرف اس صورت میں ترقی اور جائز حق مل سکتے ہیں جب یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت ہو گی۔ ’صرف عوام کے نمائندوں کی حکومت ہی عوام کی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے کوشش اور محنت کرے گی۔‘

مشرقی پاکستان

آئی اے رحمٰن نے پاکستان کے وجود میں آنے کے چند ماہ بعد پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شائستہ اکرام اللہ نے ایک موقعے پر بنگالی زبان کو احترام دینے کا مطالبہ کیا، جس پر اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ آپ ایک عورت ہیں۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کو شامل کر کے ملک بنانے سے اصلی پاکستان کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تقسیم کی کہانی کا نقطہ آغاز بنگالی زبان کو اس کا جائز حق نہ دینا تھا اور انجام ملک کے ایک بڑے حصے کی علیحدگی پر ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بنگال میں واضح اکثریت حاصل ہوئی اور پاکستان کا وجود میں آنا بنگالیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ انہی بنگالیوں کو ہم نے مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کر گئے۔

افراسیاب خٹک نے اس سلسلے میں گلگت بلتستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا لیکن آج تک وہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہیں بلکہ انہیں مختلف آرڈرز کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے۔

قانون سازی

سینیٹر سسّی پلیجو نے اس موقعے پر سینیٹ میں مادری زبانوں کو قومی زبانیں بنانے سے متعلق بل پیش کرنے میں مشکلات کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں بل میں آٹھ زبانوں کا ذکر تھا لیکن اس کی وجہ سے انھیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’مجھے یہاں تک کہا گیا کہ آپ پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں۔‘

سسّی پلیجو نے کہا کہ مجبور ہو کر انہوں نے بل میں ترمیم کی اور آٹھ کے بجائے صرف چار زبانوں کا ذکر کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور افراسیاب خٹک نے اٹھاروی ترمیم کی تیاری اور پارلیمان سے منظوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس سلسلے میں بے انتہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ صوبوں کے حقوق کی بات کیوں کر رہے ہیں۔

آئی اے رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں مادری زبانوں کا ذکر تو ہے لیکن یہ ریاست کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مادری زبانوں کا تحفظ بنیادی حقوق کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا انہوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مادری زبانوں میں تعلیم دینے کا قانون منظور کروایا اور سلیبس بھی بنوائے۔ ’لیکن ہمارا وہ سارا کام بے کار چلا گیا کیونکہ اب وہ سب کچھ ختم کر دیا گیا ہے۔‘

پینل کے شرکا کے درمیان اتفاق پایا گیا کہ پورے پاکستان میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جانا چاہیے اور ہر صوبے میں بولی جانے والی ماں بولیوں کی ترقی اور ترویج کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان