’امریکہ میں تابوتوں کے کاروبار میں تیزی آنے والی ہے‘

القاعدہ کے عسکری کمانڈر نے نائن الیون کے حملوں سے صرف آٹھ ہفتے قبل صحافی بکر عطیانی کو بتا دیا تھا کہ وہ امریکہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔

11 ستمبر 2001 کو دوسرا اغوا شدہ طیارہ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دوسری عمارت سے ٹکرانےسے کچھ دیر قبل (اے ایف پی)

انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی نے نائن الیون سے صرف دو ماہ قبل اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کا افغانستان میں انٹرویو لیا تھا۔ اس اہم انٹرویو میں اسامہ کے ساتھیوں نے امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بارے میں اہم انکشاف کیا تھا۔

اس کے بارے میں ہم نے بکر سے بات کی اور ان سے اس انٹرویو کی تفصیلات جانیں۔

آپ اسامہ بن لادن سے کب اور کہاں ملے تھے، اس دوران آپ کی ان سے کیا بات ہوئی؟

میں نے اسامہ بن لادن کا انٹرویو نائن الیون سے تقریباً آٹھ ہفتے قبل کیا تھا۔ میں ان سے 21 جون 2001 کو قندہار میں ملا اور ان کا انٹرویو کیا۔ ظاہر ہے انہوں نے کیمرے کے سامنے یہ انٹرویو نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا طالبان سے طے ہوا تھا کہ وہ میڈیا سے بات نہیں کریں گے لیکن جب میں ان کا انٹرویو کر رہا تھا تو ان کے کچھ ساتھی جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ ان میں سے ایک ابوحفص المصری (ان کا ایک اور نام محمد عاطف بھی تھا)، جو اس وقت القاعدہ کے عسکری کمانڈر تھے۔

 

’ابوحفص نے کہا کہ آئندہ کچھ ہفتوں میں ہم ایک بہت  بڑا سرپرائز دیں گے۔ ہم امریکی اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ اگر میں بالکل درست ترجمہ کروں تو ان کا مطلب تھا کہ وہ امریکی یا اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ القاعدہ کا مجھے جون 2001 میں انٹرویو کے لیے دعوت دینے کا مقصد یہی تھا کہ وہ مجھے یہی پیغام دینا چاہتی تھی۔

کیا یہ کوئی رواروی میں منہ سے نکل جانے والی بات تھی یا پھر آپ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ آپ کے ذریعے جان بوجھ کر دنیا کو پیغام دینا چاہتی تھی؟

’یقیناً، یہ واضح تھا کہ وہ ایسا ہی چاہتے تھے جیسا کہ انٹرویو سے پہلے یہ اتفاق کیا گیا تھا کہ میں ان سے کچھ مخصوص سوالات کروں گا۔ ان میں سے ایک یہ سوال بھی شامل تھا کہ انہوں نے طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے اپنی وفاداری کا اعلان کیوں کیا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ اپریل 2001 میں القاعدہ نے اعلان کیا تھا کہ اسامہ بن لادن نے ملا محمد عمر سے وفاداری کا عہد کیا تھا، اور اس کے فوری بعد ایمن الظواہری کی زیر قیادت گروپ ’اسلامی جہاد‘ نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے ہاتھ ملا لیا اور یہ ایک گروپ بن گیا اور اس کے بعد سے القاعدہ کا آفیشل نام ’قاعدۃ الجہاد‘ پڑ گیا یعنی اسامہ بن لادن گروپ سے ’القاعدہ‘ اور الظواہری کے مصری گروپ سے ’الجہاد‘ کو ملا کر یہ نیا نام رکھا گیا۔

’تو میرا اس انٹرویو کا انتظام کرنے والے پیام بر سے اتفاق ہوا تھا کہ میں جو سوالات کروں گا ان میں ملا محمد عمر سے بیعت لینے اور اسلامی جہاد سے الحاق کے سوال شامل ہوں گے۔ تو جب میں وہاں (قندہار) پہنچا تو انہوں نے کہا کہ اسامہ نے کہا کہ میڈیا سے براہ راست مخاطب نہیں ہو سکتا لیکن آپ اس میٹنگ میں ہونے والی گفتگو رپورٹ کر سکتے ہیں۔ تو وہ مجھے یہی پیغام سنانا چاہتے تھے۔ ابو حفص المصری نے مزید کہا کہ ’امریکہ میں تابوتوں کے کاروبار میں تیزی ہونے والی ہے۔‘ تو یہ ایک واضح پیغام تھا۔

جب آپ نے یہ لفظ سنے ’امریکہ میں تابوتوں کے کاروبار میں تیزی ہونے والی ہے‘ تو آپ کے ذہن میں کیا خیال آیا، کیا آپ سمجھتے تھے کہ یہ خالی خولی دھمکی ہے یا وہ اسے عملی شکل دینے میں سنجیدہ ہیں؟

’میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ میں نے ان کی جانب سے استعمال ہونے والی زبان سے محسوس کر لیا تھا، اور یہ کہ مجھے اس انٹرویو کے لیے کیوں بلایا گیا تھا۔ یہ ایک منصوبہ تھا جیسا کہ اس انٹرویو کا انتظام کرنے میں تقریباً تین ماہ کا وقت لگا کیوں کہ میں اسلام آباد میں تھا، وہاں سے افغانستان گیا۔ تو میں نے اس انٹرویو سے محسوس کر لیا تھا کہ یہ کوئی سنگین معاملہ ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ میرے ساتھ ملاقات کے بعد اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری اس مقام سے فوری طور پر کہیں اور چلے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد باہر موجود کار مجھے واپس قندہار چھوڑنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ مجھے اس جگہ کا اندازہ نہیں تھا کیوں کہ جب وہ مجھے یہاں لائے تو میں باہر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ مقام قندہار ہی میں کہیں ہو لیکن وہ تین گھنٹوں تک مجھے کار میں اِدھر اُدھر گھماتے رہے۔ بہرحال مجھے ابو حفص نے بتایا کہ حملوں کے بعد وہ مجھے دوبارہ انٹرویو کے لیے بلائیں گے۔ تو ان سب باتوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے اور وہ کسی حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کب کہاں اور کیسے اسے انجام دیں گے۔‘

جب آپ واپس آئے اور یہ انٹرویو نشر ہوا تو اس پر کیا ردِ عمل دیکھنے میں آیا؟

’اس کو وسیع پیمانے پر دیکھا گیا، پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔۔۔ مقامی اخبارات کے ساتھ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس کی بھرپور کوریج کی۔‘

جب آٹھ ہفتوں کے بعد آپ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کو جلتے ہوئے دیکھا تو آپ کے ذہن میں پہلا خیال کیا آیا؟

’یہ یقیناً میرے لیے حیران کن اور خوفناک تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ وہی حملہ ہے جس کے بارے میں اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی بات کر رہے تھے۔ انہی حملوں کی القاعدہ منصوبہ بندی کر رہی تھی۔‘

کیا اس انٹرویو کے بعد کسی سکیورٹی ایجنسی نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکیں۔

’جی بالکل۔ حملوں سے پہلے اور بعد میں بھی کئی ملکوں کی ایجنسیز اور حکومتوں نے مجھ سے رابطے کیے۔ حملوں سے پہلے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ دھمکی کتنی سنگین تھی اور اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہتے تھے جس کا ظاہر ہے مجھے بھی علم نہیں تھا۔ لیکن میں صرف یہ جانتا تھا کہ وہ جگہ قندہار یا اس کے آس پاس تھی۔

’حملے کے بعد بھی مجھ سے مزید معلومات کے لیے رابطے کیے گئے کیوں کہ یہ بہت بڑا حملہ تھا۔ یہ ایک دو ایجنسیز نے نہیں بلکہ کئی خفیہ اداروں اور حکومتوں نے رابطے کیے۔ کئی ممالک کی وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ نے بھی مجھ سے رابطے کیے۔‘

تو کیا نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ نے آپ کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی جیسا کہ انہوں نے آپ سے ایک اور انٹرویو کا وعدہ کیا تھا؟

’جی ہاں، یہ بتانا دلچسپ ہو گا کہ انہوں نے نومبر 2001 میں مجھے کال کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہو چکا تھا اور کابل پر ان کا قبضہ ہونے والا تھا۔ امریکی کابل، قندہار، جلال آباد اور ملک کے دوسرے حصوں پر بمباری کر رہے تھے۔

القاعدہ نے انٹرویو کے لیے مجھے کابل مدعو کیا تھا لیکن میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت کابل کا سفر ناممکن ہے۔ تو انہوں نے دوسرے انٹرویو کا اپنا وعدہ نبھایا لیکن میں ہی کابل نہ جا سکا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا