ٹاور گرنے کا آنکھوں دیکھا حال: ’جلنے کی بو مہینوں تک آتی رہی‘

نیویارک کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر حفیظ شیخ جب نائن الیون کے دن صبح سویرے کام کے لیے نکلے تو انہوں نے کیا دیکھا؟

حفیظ شیخ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں کو اپنی آنکھوں سے گرتے ہوئے دیکھا(اے ایف پی)

حفیظ شیخ نیویارک کے نواحی علاقے میں رہتے ہیں اور آرٹسٹ اور خطاط ہیں۔ نائن الیون کے دن وہ صبح سویرے کام کے لیے نکلے تو انہوں نے جو کچھ دیکھا، انہی کی زبانی جانیے۔

بڑی حسین صبح تھی۔ میں اکثر آفس جلدی پہنچ جایا کرتا تھا۔ جب میں ٹرین سے نکلا تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر بالکل سامنے تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک ٹاور سے دھواں نکل رہا ہے، اوپر ہلکے ہلکے شعلے تھے۔

مجھے حیرت تو ہوئی کہ اس کے اندر آگ کیسے لگ گئی، لیکن پھر سوچا کہ چلو فائر فائٹر بجھا دیں گے۔ پھر خیال آیا کہ ایک بار پہلے بھی کسی نے اسی ٹاور پر حملہ کیا تھا، لیکن پھر اسے وہم سمجھ کر ٹال دیا۔

پھر میں دفتر پہنچا تو کھڑکی سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر بالکل سامنے نظر آتا ہے، میں نے نوٹ کیا کہ دوسرے ٹاور میں بھی آگ لگی ہے، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ دوسرے ٹاور تک آگ کیسے پہنچ گئی۔

میں نے دفتر کا ٹی وی آن کیا تو کچھ اور ہی کہانی سامنے آ گئی۔ اس وقت عجیب و غریب کیفیت تھی۔ دفتر کے لوگ باتیں کرنے لگے۔

کوئی کہتا تھا سان فرانسسکو سے جہاز آئے ہیں، کوئی کچھ۔ سب کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔

میرے باس یہودی ہیں، دفتر میں بھی بیشتر ملازم یہودی تھے۔ اگرچہ اس کا کبھی احساس نہیں ہوا تھا، لیکن وہ سب دیکھ رہے تھے۔ اس عمارت کے جلنے پر عجیب سی کیفیت تھی۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں آنسو اور تکلیف نظر آ رہی تھی۔

میرے باس کا بیٹا، جو اس وقت 18 یا 19 سال کا تھا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’یہ تمہارے لوگوں کا کام ہے!‘

مجھے جھٹکا لگا اور میں نے مڑ کر اسے دیکھا تو اسے بھی احساس ہو گیا۔ اور اس نے فوراً معذرت کرلی کہ ’میرا مقصد آپ کا دل دکھانا نہیں تھا۔‘

اسی دوران عمارتیں جل رہی تھیں۔ آپ سوچیں کہ ایک عمارت جو ٹیلی ویژن پر اتنی بڑی نظر آتی ہے، اسے آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں، اس کے دھویں کو محسوس کریں، ہوا کو محسوس کریں، تو بالکل کچھ اور کیفیت ہوتی ہے۔

پھر وہاں سے آنے والی آوازیں، پھر وہ لوگ جن کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، اور وہ 70ویں اور 80ویں منزلوں سے کودنے پر مجبور ہو گئے۔ جیسے مکھی یا مچھر چٹ کر مارا جاتا ہے، ویسے ہی وہ لوگ زمین پر گرتے تھے۔

اور پھر ایک ٹاور گر گیا تو ایسے محسوس ہوا جیسے زلزلہ آ گیا ہے اور واقعی زلزلہ مرکز نے باقاعدہ جھٹکے ریکارڈ کیے تھے۔

میں دفتر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرف سے آ رہے تھے۔ سب کے کپڑے، چہرے، سر راکھ اور دھول میں اٹے ہوئے تھے۔ وہ سب آہستگی سے چلے جا رہے تھے، لگتا تھا کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کہاں جا رہا ہے۔

کسی کے چہرے پر کوئی جذبات نہیں تھے، نہ غم نہ خوشی، نہ سمت کا کوئی احساس۔ بس چلے جا رہے تھے۔

پتہ چلا کہ تمام ٹرینیں بند ہیں۔ میرا گھر دریا کے اس پار تھا، مجھے فکر لگ گئی کہ گھر کیسے جاؤں گا۔ اس دوران کئی لوگوں نے مجھے کالیں کیں کہ اگر گھر نہیں جا سکتے تو ہماری طرف آ جاؤں۔ ان لوگوں میں دفتر کے کئی یہودی بھی شامل تھے۔

اس کے بعد ایک ڈیڑھ مہینے تک پورے شہر میں جلنے کی عجیب سی بو آتی رہی، کیمیکل کی، لاشوں کی، ملی جلی بو۔

پھر میں نے دیکھا کہ جو لوگ مر چکے تھے، ان کے کوئی آثار نہیں ملے۔ بہت سے لوگوں نے گم شدہ پیاروں کی تصویریں گلیوں میں لگا رکھی تھیں کہ اگر کسی نے ان کو دیکھا ہو تو ان کے بارے میں اطلاع دیں۔ لوگ اپنے رشتہ داروں، عزیزوں کو مہینوں ڈھونڈتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران لوگوں کے چہروں پر عجیب سی مردنی تھی۔ مجھے 1971 میں ڈھاکہ کا سقوط یاد ہے، کچھ ایسے ہی تاثرات مجھے اس وقت نیویارک کے لوگوں کے چہروں پر دکھائی دیے۔

خود مجھ پر شدید نفسیاتی اثر ہوا۔ میرا ورلڈ ٹریڈ سے تعلق 1981 میں بنا تھا۔ میں ہمیشہ دفتر جانے کے لیے یہاں ٹرین سے اترتا تھا۔ کئی بار اس کے اوپر بھی جانا ہوا۔ میرا کوئی مہمان آتا تھا تو میں اسے ٹاور کے اوپر لے کر جاتا تھا۔ میرے مرحوم والد آئے تو میں انہیں بھی اوپر لے گیا۔ بلکہ میرے والد کو اوپر جا کر خوف بھی محسوس ہوا کیوں کہ وہاں شیشے کی دیوار تھی جہاں سے نیچے کا منظر دکھائی دیتا تھا۔

اس کے علاوہ عمارت کے نیچے کئی منزلیں تھیں۔ میں جن لوگوں کو روز دیکھتا تھا، وہ دوبارہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ میں اب بھی وہیں سے گزرتا ہوں، تو اب بھی میرے ذہن میں وہ چیزیں چلتی ہیں کہ یہیں پر تین چار ہزار لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے۔

میں جب سوچتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر ایک بڑے سے پیڑ کی طرح تھا، جس کی شاخوں کے اندر نجانے کتنی دکانیں تھیں، کتنے لوگوں کے کاروبار تھے، کتنوں کا روزگار تھا۔ اس میں کتنے لوگ غیر قانونی بھی تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ ان کا کیا بنا اور وہ کسی شمار قطار میں آئے یا نہیں۔

ابھی اسی جگہ پر ایک نیا ٹاور بنا دیا گیا ہے، بہت خوبصورت ہے، بہت ماڈرن ہے۔ مگر میں اس کے اوپر نہیں گیا۔ ہمت ہی نہیں ہوئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ