نور مقدم کیس:’مقدمے کی خفیہ سماعت کی درخواست کریں گے‘

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی پر نور مقدم قتل کے حوالے سے پولیس کی مدد نہ کرنے اور حقائق پوشیدہ رکھنے کے الزامات ہیں۔

نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین نے کیس کی آئندہ ہونے والی عدالتی کارروائیوں کو خفیہ رکھنے سے متعلق عدالت سے درخواست کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی پر نور مقدم قتل کے حوالے سے پولیس کی مدد نہ کرنے اور حقائق پوشیدہ رکھنے کے الزامات ہیں۔ 

جمعرات کو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ وہ ’مقدمے کی خفیہ (اِن کیمرہ)سماعت کرنے کی درخواست کریں گے۔‘

اس پر جج نے جواب دیا: ’ درخواست جمع ہونے کے بعد قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔‘

مرکزی ملزم ظاہر جعفر، ان کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی اور تین دوسرے ملزمان جمعرات کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود تھے۔ 

یاد رہے کہ چھ ستمبر کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ان کی والدہ عصمت آدم نے ’پرائیویسی‘ کے لیے میڈیا والوں کو کمرہ عدالت سے باہر رکھنے کی درخواست کی تھی۔

اسی روز ایک کیمرہ مین کے موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بھی حذف کروائی گئی تھی۔ 

اس روز سماعت سے قبل کمرہ عدالت کے باہر ملزمہ عصمت آدم جی نے موبائل فون سے ویڈیو بنانے والے نجی ٹی وی کے کیمرہ مین کو کہا کہ وہ ویڈیو ان کے سامنے ڈیلیٹ کریں، جس کے بعد انہوں نے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ کیمرہ مین کا موبائل فون لے کر ویڈیو ڈیلیٹ کی جائے، جس پر پولیس اہلکار نے کیمرہ مین کا موبائل فون لیا اور ویڈیو ڈیلیٹ کر دی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت کے باہر پولیس اہلکاروں سے کہا تھا کہ ’ہماری پرائیویسی ہے، لہذا میڈیا والوں کو کمرہ عدالت سے باہر رکھیں۔‘ 

اس سے قبل نور مقدم قتل مقدمہ سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت سے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کو منتقل کیا گیا۔ 

مقدمے کی سماعت شروع ہوتے ہی اسلام آباد میں کوہسار پولیس سٹیشن کے عملے نے قتل کے مقدمے کا چالان عدالت میں جمع کروایا۔ 

جج عطا ربانی نے چالان جمع ہونے کے بعد کہا کہ کیس فائل کی کاپیاں اگلی سماعت پر (23 ستمبر) تمام ملزمان کی موجودگی میں تقسیم کی جائیں گی۔

عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر، ان کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے علاوہ ان کے تین گھریلوں ملازمین کے جوڈیشل ریمانڈ میں اگلی سماعت تک توسیع کرتے ہوئے 23 ستمبر کو تھیراپی ورکس کے چھ ملازمین کو بھی حاضر ہونے کا حکم دیا۔ 

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر پر کام کرنے والے ملازمین کی شناخت افتخار، جان محمد اور جمیل کے ناموں سے ہوئی ہے، جبکہ تھیراپی ورکس کے ملازمین ضمانت پر ہیں۔ 

واضح رہے کہ رولز اور طریقہ کار کے تحت کسی قتل مقدمے میں ملزم کے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے جانے کے 14 دن کے اندر چالان عدالت میں جمع کرنا ہوتا ہے، جبکہ ظاہر جعفر کو دو اگست کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا۔

کیس کا پس منظر 

28 سالہ نور مقدم کی لاش 20 جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون۔فور میں ایک مکان میں پائی گئی تھی، جبکہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو اسی گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

مقتولہ کے والد شوکت علی مقدم کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے مقام سے گرفتار ہونے والے ظاہر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ 

ظاہر کے والدین اور گھریلو عملے کو 24 جولائی کو مبینہ طور پر شواہد چھپانے اور جرم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

شوکت مقدم نے پولیس کو بتایا تھا کہ 19 جولائی کو قربانی کا جانور خریدنے وہ راولپنڈی گئے تھے، جبکہ ان کی بیوی درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں۔ شام کو وہ گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم کو موجود نہ پایا۔ 

انہوں نے بیٹی کے موبائل پر فون کیا جو بند تھا، جس کے بعد اس کی تلاش شروع کر دی گئی، تاہم کچھ دیر بعد نور مقدم نے فون کرکے بتایا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آجائیں گی۔ 

20 جولائی کی رات دس بجے کے قریب، شوکت مقدم کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوتی ہے، جس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی کا قتل ہو گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف سیون۔فور میں لے گئی جہاں انہیں پتہ چلا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار آلے کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان