سب سے پہلے نور مقدم قتل وقوعے پر پہنچنے والے نے کیا دیکھا؟

ظاہر جعفر کے گھر جانے والی تھیراپی ورکس کی ٹیم کے رکن امجد نے کہا کہ سیڑھی کے ذریعے اوپر پہنچنے والے وہ پہلے شخص تھے۔

تھیراپی ورکس کے سربراہ نے کہا ’ہم ایک مریض کو لینے اس کے گھر گئے اور ایسی کارروائی میں ہم عموماً پرتشدد شخص پہ قابو پانے کے لیے اسے ایک ٹیکا لگا کر بے ہوش کر دیتے ہیں(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو ریسکیو کرنے والے کلینک تھیراپی ورکس کی انتظامیہ نے جرم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس پر ادارے کو ملوث کرنے کا الزام لگایا ہے۔

تھیراپی ورکس کے مالک اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) طاہر ظہور احمد نے ہفتے کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مرکزی ملزم کے والد ذاکر جعفر نے انہیں فون پر بتایا تھا کہ ’لڑکے پرتشدد ہو رہا ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے۔‘

’میں نے ان سے پوچھا کہ ان کا بیٹا مسلح تو نہیں ہے جس کا انہوں نے انکار کیا۔‘

واضح رہے کہ جولائی میں پاکستان کے سابق سفیر کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کے ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی، جس میں اس وقت پاکستان کی ایک بڑی بزنس فیملی سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر بھی موجود تھے، جو اس قتل کیس کے مرکزی ملزم ہیں۔

ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے اسی رات تھیراپی ورکس کو فون کر کے ان کے بیٹے کو ادارے لے جانے کی استدعا کی تھی اور اسی مقصد کے لیے ایک ٹیم وہاں پہنچی تھی۔

کچھ روز قبل اسلام آباد پولیس نے تھیراپی ورکس کے ٹیم اراکین کے نام ’واردات سے متعلق معلومات چھپانے، شہادتوں کو خراب کرنے اور پولیس کو بروقت اطلاع نہ دینے کے الزام میں ملزمان کی فہرست میں شامل کیا ہے۔‘

تھیراپی ورکس کے سربراہ نے کہا ’ہم ایک مریض کو لینے اس کے گھر گئے اور ایسی کارروائی میں ہم عموماً پرتشدد شخص پہ قابو پانے کے لیے اسے ایک ٹیکا لگا کر بے ہوش کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب ان کی پانچ رکنی ٹیم ظاہر جعفر کے گھر پہنچی تو باہر کافی لوگ موجود تھے، جن میں مرکزی ملزم کے دوست اور کچھ آس پاس رہنے والے شامل تھے۔ ’ان میں سے کسی نے ہماری ٹیم کو نہیں بتایا کہ اندر قتل ہو چکا ہے۔‘

طاہر ظہور احمد نے مزید کہا کہ تھیراپی ورکس کی ٹیم نے ظاہر جعفر کو باہر آنے کا کہا لیکن وہ ٹالتے رہے اور تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد ان کے ورکر سیڑھی لگا کر اس کمرے میں پہنچے جہاں مرکزی ملزم نے اپنے آپ کو بند کر رکھا تھا۔

ظاہر جعفر کے گھر جانے والی تھیراپی ورکس کی ٹیم کے رکن امجد نے کہا کہ سیڑھی کے ذریعے اوپر پہنچنے والے وہ پہلے شخص تھے۔

امجد جو تھیراپی ورکس میں نرس ہیں، نے کہا ’میرے بعد دوسرے لوگ بھی آئے اور ہم لاش کو دیکھ کر ششدر رہ گئے، ہم نے نیچے دوسرے لوگوں کو اس کے متعلق بتایا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے کمرے میں پہنچنے پر ظاہر جعفر نے ان پر پستول تان لی اور دو مرتبہ گولی چلانے کی بھی کوشش کی۔

امجد کے مطابق ’اس کے بعد ظاہر جعفر نے مجھ پر چھری سے وار کئے جس سے میری گردن اور پیٹ زخمی ہو گئے۔‘

تھیراپی ورکس کے سی ای او نے کہا کہ ’جونہی انہیں قتل کا علم ہوا انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد ایک پولیس پارٹی جائے واردات پر پہنچی۔‘

 

انہوں نے مزید کہا ’ہم ایک مریض کو لینے گئے تھے تو پولیس کو کیسے اطلاع کرتے لیکن جب ہم نے جرم خود دیکھ لیا تو پہلا کام یہی کیا کہ پولیس کو اطلاع دی۔‘

طاہر ظہور نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’قتل کا علم ہونے پر جب انہوں نے ذاکر جعفر کو فون کیا تو انہوں نے اس اطلاع پر کسی قسم کی حیرانی یا صدمے کا اظہار نہیں کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس پر مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کیسے کوئی اپنے بیٹے کے گھر میں قتل کا سن کر، جہاں اس کا بیٹا بھی موجود ہو ایسا نارمل ردعمل دے سکتا ہے۔‘

انہوں نے ’جائے واردات پر شہادتوں کو خراب کرنے کے الزام‘ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے خود 14 شہادتیں اکٹھی کی ہیں جو بالکل اصلی حالت میں ہیں تو ہم نے کیا خراب کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ چار دن اور چار راتیں پولیس کو بیانات دیتے رہے ہیں اور پوری طرح تعاون بھی کیا، جب کہ انہیں بغیر کسی وجہ کے 10 دن تک حراست میں رکھا گیا۔

طاہر ظہور کے وکیل محمد شہزاد قریشی نے اس موقع پر کہا کہ تھیراپی ورکس کے زخمی اور دو دوسرے ورکرز نے پمز اسپتال میں پولیس بیان میں سارے واقعات من و عن بتا دیے، جب کہ پولیس کی غلطی سے اس بیان میں ٹریفک حادثہ لکھ دیا گیا۔

’اس بیان میں اوپر ساری معلومات درج ہیں جب کہ نیچے ایک مقام پر ٹریفک حادثے کا ذکر ہے، اگر کچھ چھپانا ہوتا تو بیان میں یہ لوگ سب کچھ بتاتے ہی کیوں؟‘

طاہر ظہور احمد نے کہا کہ ظاہر جعفر یا ان کی والدہ کا تھیراپی ورکس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’مجھ سے ذاکر جعفر نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے کچھ مہینے پہلے رابطہ کیا تھا جب کہ مرکزی ملزم کی والدہ نے ان کے ادارے سے ایک کورس کر رکھا ہے۔‘

دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا  کہ ’نور مقدم کیس کو نہایت پیشہ ورانہ انداز میں ہینڈل کیا جا رہا ہے اور اس میں کسی کو غیر ضروری طور پر ملوث نہیں کیا جا رہا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان