’بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کے لیے ہارٹ سرجن کی مہارت چاہیے‘

سینٹرلائزڈ کرنسی کا روپ دھارنے والے بٹ کوائنز کی قدر میں اضافے کے ساتھ اس میں دھوکہ دہی اور نوسر بازی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کرپٹو کرنسی کی 17 دسمبر 2020 کو لی گئی تصویر جس میں بٹ کوائنز کی جسمانی ساخت کو استمبول کی ایک دکان میں رکھ کر نمایاں کیا گیا ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

کرپٹو کرنسی یا بٹ کوائن آن لائن کرنسی کی خریدوفروخت دنیا بھر کے لوگ کر رہے ہیں۔ اس کام میں بیشتر افراد ایسے ہیں جو اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی گھر بیٹھے راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتے ہوئے اس کاروبار سے وابستہ ہوتے جارہے ہیں۔

سینٹرلائزڈ کرنسی کا روپ دھارنے والے بٹ کوائنز کی قدر میں اضافے کے ساتھ اس میں دھوکہ دہی اور نوسر بازی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لاہور کے رہائشی عقیل احمد (فرضی نام) کو گذشتہ ہفتے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور ان سے بٹ کوائن کی خریداری کے لیے جمع کیے گئے امریکی ڈی ٹی جن کی مالیت پاکستانی روپے میں 2 لاکھ 50 ہزار تھی وہ ایک فرضی اکاؤنٹ میں منتقل کرالیے۔

عقیل کے مطابق پولیس نے شکایت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کرنے کو کہا لیکن ایف آئی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ اس بارے میں کوئی قانون موجود نہیں کہ ان کی آن لائن کرنسی واپس دلوائی جاسکے تاہم نامعلوم افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل بھی لاہور سے غیر ملکی باشندوں کو اغوا کر کے بٹ کوائنز ٹرانسفر کرائے گئے تھے جس میں آسٹرین باشندے میگرون ماریہ سپاری کے بیٹے نے اپنے والد کے اغوا کاروں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر 1.8 بٹ کوائن جس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک کروڑ 41 لاکھ روپے بنتی ہے کا انتظام کیا اور بتائے گئے اکاؤنٹ میں انہیں منتقل کردیا۔

ملک فرحان نامی اسلام آباد کے رہائشی نے گذشتہ ماہ کرپٹو کرنسی کے فیس بک پر بنے ایک گروپ میں میسج کیا کہ 35 سو سے 4 ہزار ڈالرز مالیت کے ڈی ٹی فروخت کرنا چاہتے ہیں جو پاکستانی روپے میں سات سے آٹھ لاکھ مالیت بنتی ہے۔

ان کے بقول گروپ ایڈمن نے ان کی ڈیل کرادی اور خریدار شخص نے اپنے اکاونٹ کا لنک بھیجا جب اس نے ڈی ٹی ٹرانسفر کیے تو اس نے رقم منتقل کرنے کی بجائے انہیں بلاک کردیا انہوں نے بھی ایف آئی اے سے رجوع کیا لیکن ابھی تک رقم یا کوائنز واپس نہیں مل سکے۔

آن لائن کرنسی کے ذریعے فراڈ پکڑنا کیوں مشکل ہے؟

بٹ کوائنز کی خرید و فروخت سے وابستہ وقار ذکا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں کرپٹو کرنسی یا بٹ کوائنز سے متعلق ہونے والے فراڈ پر قابو پانے یا آن لائن کرنسی واپس دلانے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ کیونکہ یہ ایسا نظام ہے کہ اس کاروبار سے وابستہ افراد کو خود ہی فراڈ سے بچنا ہوتا ہے۔

وقار کے بقول: ’دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے بھی بہت شہری اس کاروبار سے منسلک ہوچکے ہیں لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں سب سے پہلے اس کام میں دیگر کاروباروں کی طرح مہارت حاصل کرنا لازمی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس میں بھی اتنی مہارت ہو جتنی ہارٹ سرجن کو اپنے کام کی مکمل آگاہی ہوتی ہے مسئلہ تب ہوتا ہے جب کسی اور پر انحصار کیا جائے۔

وقار ذکا نے کہا کہ بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن ہونے والا صرف کرپٹو کرنسی کا ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے کاروبار ہیں جن میں رقوم کی واپسی ممکن نہیں کیونکہ اگر کوئی کسی کو لنک بھیجتا ہے اور وہ اس لنک کو قبول کر کے اس کے ذریعے کرنسی یا یا کسی چیز کی خریدو فروخت کرتاہے تو اس کا کنٹرول تو لنک بھیجنے والے کے پاس ہوگا اور وہ باآسانی کسی کو بھی دھوکہ دیکر کرنسی یا کوئی بھی چیز اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر سکتا ہے جس کی واپسی پوری دنیا میں کسی کے بس کی بات نہیں۔

پاکستان میں آن لائن کرنسی کے کاروبار کے لیے قانون کی ضرورت

ایف آئی اے لاہور کے لیگل سیل کے ڈائریکٹر منعم چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آن لائن جرائم پر قابو پانے کے لیے الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں 2016 کے دوران ترامیم کی گئی تھیں لہذا ایف آئی اے اسی قانون کے تحت آن لائن فراڈ میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جبکہ آئے روز جدید طرز کے جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین بھی مسلسل اپ گریڈ ہونے چاہییں۔

کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو میں کہاتھا کہ ’حکومت پاکستان بٹ کوائنز کے کاروبار سے متعلق قانون سازی پر غور کر رہی ہے اور غور کیا جا رہا ہے کہ اس معاملہ پر عالمی سطح پر کیا پالیسی اپنائی جاتی ہے اسی کے مطابق ہم بھی حکمت عملی تیار کریں گے۔‘

وقار ذکا کے مطابق کرپٹو کرنسی سے متعلق کسی ایک ملک کی حکومت موثرحکمت عملی نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے لیے دنیا کے دیگرممالک کو بھی یکساں نظام رائج کرنا ہوگا پہلے تو یہ طے نہیں ہوسکا یہ کاروبار قانونی ہے یا غیر قانونی تو اس میں فراڈ کرنے والوں کو کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ابھی تو مختلف ویب سائٹس اور کمپنیز اپنے اپنے طور پر اس کرنسی کا اجرا کر رہی ہیں۔

اس کام سے وابستہ لوگوں کو خود ہی اپنی مہارت کے ذریعے ہیکرز اور فراڈ کرنے والوں سے بچاؤ کرنا ہوتا ہے اس لیے کسی پر اعتماد کرنے کے بجائے ہر ایک کو پہلے خود مکمل طور پر اس کاروبار کی سوجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے۔

عقیل کے بقول کہ ان کے ساتھ ہونے والی وردات پر انہوں نے زیادہ رد عمل یا قانونی کارروائی کے لیے کوشش اس لیے بھی نہیں کی کہ ہمارے معاشرے میں بٹ کوائنز کی خرید و فروخت کو معیوب یا جوا سمجھا جاتا ہے اور اس طرح کی واردات کو منظر عام پر لانے سے بد نامی کا ڈر ہوتاہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت