پیمرا کی چینلز کو ’گلے لگنے‘، ’بیڈ سین‘ سے اجتناب کی ہدایت، شوبز نالاں

پیمرا کے مطابق اسے وزیرِ اعظم سٹیزن پورٹل اور اپنے مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر متعدد شکایات ملی ہیں جن میں پاکستانی ڈراموں میں ’اقدار کے منافی‘ مناظر کی شکایات کی گئی ہیں۔

رواں ماہ ختم ہونے والے ڈرامے ’پہلی سی محبت‘ کی پروموشنل تصویر (اے آر وائی ڈیجیٹل)

پاکستان کے نامور ترین ڈراما پروڈیوسرز، ہدایتکاروں اور ڈراما نگاروں نے پیمرا کی جانب سے حال ہی میں بھیجی جانے والی ایڈوائزری کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اسے تخلیقی عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور ملک کو 80 کی دہائی کی جانب دکھیلنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے تمام سیٹیلائٹ اور لینڈنگ رائٹس رکھنے والے ٹی وی چینلز کو ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ڈراموں میں ’گلے لگنا، پیار سے چھونا، بولڈ کپڑے، بیڈ سین، شادی شدہ افراد میں محبت بھرے مناظر کو بہت زیادہ گلیمر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے جو اسلامی تعلیمات اور پاکستانی معاشرتی اقدار کے صریحاً منافی ہے‘، اس لیے ان سے اجتناب کیا جائے۔

پیمرا کے مطابق اسے وزیرِ اعظم سٹیزن پورٹل اور اپنے مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر متعدد شکایات ملی ہیں جن میں پاکستانی ڈراموں میں ’اقدار کے منافی‘ مناظر کی شکایات کی گئی ہیں۔

ہم ٹی وی نیٹ ورک کی صدر سلطانہ صدیقی نے اس سلسلے میں انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پیمرا کی ایڈوائس دیکھی ہے، اور وہ سمجھتی ہیں کہ اس میں بہت سا ابہام ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس کا تعین کیسے ہوگا کہ ڈرامے میں ایک سین ہے، بیٹی رو رہی ہے اور باپ اس کو گلے لگاتا ہے، یا ماں بیٹے کو گلےلگاتی ہے تو کیا یہ بھی نہیں دکھایا جاسکتا؟

ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی’فحاشی‘ کے خلاف ہیں، اس بارے میں ان کی رائے واضع ہے، حتیٰ کہ وہ برا لفظ بولے جانے کے بھی خلاف ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ڈرامے کی صورتِ حال میں رشتوں کے اعتبار سے ڈرامے کے اس منظر کی ضرورت کے لیے کریں کیا؟ جیسے کسی لڑکی کا شوہر مرگیا ہے، کسی کا باپ مرگیا ہے تو ایسی صورت میں کیا دکھائیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاکستانی ڈراموں میں ’بیڈ سین‘ یا بستر کے مناظر تو ہوتے ہی نہیں ہے، میاں بیوی اگر بستر پر بیٹھے بھی ہوتے ہیں تو گلے تو نہیں مل رہے ہوتے۔

سلطانہ صدیقی نے کہا کہ اس ایڈوائزری میں واضع تضاد ہے، اس میں لکھی ہر چیز میں ابہام ہے۔ ’ایک طرف تو ارتغرل کی تعریف ہوتی ہے، اس میں تو قتل عام دکھاتے ہیں، اور ہم تو خون بھی نہیں دکھا سکتے، ڈرامے کی ضرورت ہو تب بھی نہیں دکھا سکتے اور ادھر نیوز چینلز میں تو سب کچھ دکھایا جارہا ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ واضع ہی نہیں کہ کون سا کردار کس کردار کو گلے نہیں لگا سکتا، اگر پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے دیکھیں تو لڑکیوں نے بغیر آستین کے قمیض پہنی ہوتی تھی، جبکہ آج کے زمانے میں ہم کپڑوں کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔

’ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، اس وقت ملک میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ سڑک پر کتنے واقعات ہوجاتے ہیں اس کا ذکر نیوز میں تو ہوسکتا ہے مگر اس پر ڈراما نہیں بن سکتا۔ پاکستانی معاشرے میں بہت کچھ ہورہا ہے مگر ہم اسے نہیں دکھا سکتے۔‘

سلطانہ صدیقی نے متنبیہ کیا کہ پاکستان کی فلمیں تو تباہ ہوہی چکی ہیں، اس ملک کے ڈرامے کا بھی ستیاناس ہوجائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج کے دور میں لوگ ٹی وی سے زیادہ سوشل میڈیا پر ڈرامے اپنی مرضی کے اوقات میں دیکھتے ہیں اور وہ تو پیمرا کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں آتا اور سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہیں ہوتا۔

اسی بارے میں ڈراما ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ کی پروڈیسر نینا کاشف نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم ڈراما انڈسٹری میں معاشرے کی موجودہ صورتِ حال کی عکاسی اس کے فطری انداز میں کرتے ہیں، اور ایسے مناظر کو عکس بند کرتے ہوئے ہم روایات اور ناظرین کو بھی مدِ نظر رکھتے ہیں، تاہم چند مقامات پر ڈرامے میں گلے للگنے، پیار دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کسی کی وفات کے موقع پر۔ لیکن بحیثیت مجموعی، پاکستانی میڈیا بہت زیادہ ذمےداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے خیال میں پیمرا کو میڈیا پر نظر رکھتے ہوئے معاشرتی حقائق کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے اور انہیں کس حد تک ٹی وی پر دکھایا جاسکتا ہے، اس کا فیصلہ تخلیق کار کریں کیونکہ وہ عوام کی پسند و ناپسند کے مطابق ہی کام کرتے ہیں، کیونکہ بالآخر کسی بھی ڈرامے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار عوام پر ہوتا ہے۔

ندیم بیگ جو معروف ترین ڈراما ’میرے پاس تم ہو‘ کے ہدایت کار ہیں اس ضمن میں انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا کام اس طرح کی مداخلت کرنا نہیں ہے۔

’اس طرح کی پابندی لگانا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے، بستر پر بیٹھ نہیں سکتے، ہمیں 80 کی دہائی کی جانب واپس لےجانے کی کوشش ہے جب ایک لڑکی سو کر بھی اٹھتی تھی تو اس کے سر پر دوپٹہ ہوتا تھا۔

’ہم خود بہت ہی ذمےدار لوگ ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں گھروں ٹی وی پر ہمیں کیا دکھانا ہے، کونسی چیز معیوب ہے اور کونسی نامناسب ہے، اس لیے حکومت کو معمولی معاملات سے دور رہنا چاہیے اس کے پاس دیگر کئی کام ہیں کرنے کے لیے، مگر جو بھی آتا ہے پہلے پابندی میڈیا پر لگاتا ہے جس میں ٹی وی اور فلم بھی شامل ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹی وی پر شوہر اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مار سکتا ہے مگر پیار سے اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا، جہاں کسی عورت کو دھکے مار کر گھر سے نکالا جاسکتا ہے، مگر اظہار محبت اور انسیت نہیں دکھایا جاسکتا اس لیے میرے لیے یہ سب انتہائی افسوسناک ہے۔‘

’رقصِ بسمل‘ جیسے مشہور ڈرامے کے ہدایتکار وجاہت رؤوف کہا کہ میڈیا کسی بھی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور وہی دکھاتا ہے جو معاشرے میں ہورہا ہوتا ہے، کبھی حقیقت کی صورت میں کبھی فکشن کی صورت میں۔

’طویل عرصے سے ٹی وی پر معاشرے کے مروجہ اصولوں کے مطابق ہی چیزیں چل رہی ہیں تو اب ایسا کیا ہوگیا کہ اچانک انہیں بدلنے کی ضرورت پیش آگئی ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ اگر میاں بیوی میں قربت نہیں دکھائی جاسکتی تو پھر معاشرے کی غلط عکاسی ہوگی اور تو جھوٹ دکھایا جائے گا کہ ایسے نہیں ایسے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تخلیقی عمل ہے، یہ سینسر شپ یا پابندیوں کے سائے پروان نہیں چڑھ سکتا، اس لیے اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے، البتہ مانیٹر ضرور کیا جاتا رہے، جیسے پیمرا ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔

پاکستان کی معروف اداکارہ حرا مانی نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کہ لوگ اداکاری کو اداکاری کیوں نہیں سمجھتے۔

’ہم اداکار ٹی وی پر جو بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ اداکاری ہی ہوتی ہے، حقیقت نہیں ہوتی، اب ایک لڑکا لڑکی میں محبت ہے، تو وہ جب ملیں گے تو ہاتھ پکڑیں گے نا، حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، تو ٹی وی پر بھی ایسا ہی دکھایا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی