بالفور اعلامیہ: فلسطین میں برطانیہ کی مہلک غلطی

بالفور اعلامیے کا تاریخی پس منظر کیا تھا اور اس کے اثرات ایک صدی بعد کیسے قائم ہیں؟

آرتھر بالفور (بائیں) اور ونسٹن چرچل 1911 میں (پبلک ڈومین)

دو نومبر کو بالفور اعلامیے کے 104 برس مکمل ہونے کے موقعے پر منگل کے روز عرب لیگ نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین کو تقسیم کرنے پر معافی مانگے۔

عرب لیگ نے ایک بیان میں کہا، ’اس سالگرہ کے موقعے پر عرب لیگ کے ملکوں کا جنرل سیکریٹیریٹ برطانیہ سے ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس تاریخی غلطی کا ازالہ کرے، اور اپنی تاریخی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فلسطینی عوام سے اس تکلیف اور درد و ستم کی معافی مانگے جو وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سہہ رہے ہیں۔‘

عرب لیگ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ برطانیہ چار جولائی 1957 کے خطوط پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے، جس میں مشرقی بیت المقدس اس ریاست کا سربراہ ہو۔

اس موقعے پر غزہ میں واقع جبلیہ پناہ گزین کیمپ میں درجنوں فلسطینیوں نے مظاہرہ کیا جس میں مظاہرین نے بینروں اور پلے کارڈز کی مدد سے برطانیہ سے مطالبہ کیا وہ اپنی غلطی کی معافی مانگے۔

بالفور اعلامیہ دو نومبر 1917 کو برطانیہ کی جانب سے ایک عوامی سطح پر کیا جانے والا وعدہ تھا جس کے تحت فلسطینی علاقے کے اندر یہودیوں کے لیے قومی ریاست‘ کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔

یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور نے برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے رہنما لائیونل والٹر روتھ چائیلڈ کے نام خط میں لکھ کر جاری کیا تھا، اور یہی بعد میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے قیام کی بنیاد بنا۔

یہ اعلامیہ کیا تھا، اور اس کا پس منظر کیا تھا، اس کے لیے ہم یوجین روگن کی ایک تحریر پیش کر رہے ہیں جو ’دا مسلم ٹائمز‘ کے شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔

بالفور اعلامیہ: فلسطین میں برطانیہ کی مہلک غلطی

یوجین روگن

قوم پرستی کی مخالفانہ اور ناموافق فضا میں برطانیہ کے پاس اس علاقے سے دستبردار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کے متعلق اسے امید تھی کہ وہ اس کی سلطنت کا مستقل حصہ بنے گا۔

لارڈ بالفور کے اعلامیے کو ایک صدی گزر چکی ہے لیکن سابقہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج کے سیکریٹری خارجہ یا اس کے بعد کی حکومتیں ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکیں کہ وہ فلسطین کے ساتھ کیا کرنا چاہتے تھے۔

اسے ایسا معمہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی جیو سٹریٹیجک وجوہات کے سبب برطانیہ فلسطین کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے برطانوی حکومت نے صیہونی تحریک کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی، الگ صیہونی ریاست قائم کرنے کے مقصد سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ فلسطینی عربوں کی متوقع مزاحمت کا سامنا کرنے کے لیے فلسطین میں آباد ہونے والے صیہونی آبادکاروں کی ساتھ شراکت داری کی جائے۔

اس صورت حال کا موازنہ فرانس کی لبنان میں دخل اندازی سے کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی فلسطین میں صیہونی وہی کام کر رہے تھے جو مارونی (Maronites) لبنان میں۔ مارونی کی طرح فلسطین کے صیہونی ایک منظم اقلیتی برادری تھی جو پیرس امن کانفرنس میں فلسطینی علاقوں پر برطانوی راج کی کھلے عام وکالت کرتی اور اس علاقے پر حکومت کرنے میں برطانویوں کے ساتھ ہاتھ بٹاتی۔

فلسطین کو برطانوی سلطنت میں شامل کرنے کی یہ خواہش 1917 میں بالکل نئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل برطانیہ کی اعلانیہ طور پر سلطنت عثمانیہ کے زیرِ انتظام فلسطینی سرزمینوں سے دلچسپی کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ عدم دلچسپی کا یہ رویہ جنگ کی ابتدا تک پوری طرح برقرار رہا۔

1915 کے اپریل اور مئی میں برطانوی سامراج کی ایشیا میں دولت عثمانیہ کی سرزمینوں میں دلچسپی کے معاملے پر بٹھائی گئی  ڈی بنسن کمیٹی The De Bunsen Committee نے میسوپوٹیمیا کو بحیرہ روم سے ملانے والی بندرگاہ حیفہ میں موجود ایک ریل ٹرمینل کے سوا عملی طور پر ایسے ہر دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

ڈی بنسن کمیٹی اپنے جائزہ میں اس بات پر پہنچی کہ ’فلسطین کو ایسے ملک کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے جس کے مستقبل کا فیصلہ خصوصی مذاکرات کا موضوع ہو، اس میں غیر جانبدار اور متحارب دونوں دھڑے برابر کی دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

تقسیم کی حکمت عملی

ان سفارشات نے برطانوی تقسیم کی حکمت عملی کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد اپریل اور اکتوبر 1916 میں سر مارک سائیکس نے شارل فرانسوا جارج پیکو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ فلسطین کو فرانسیسی، روسی اور برطانوی انتظامیہ کے تحت مشترکہ بین الاقوامی سرزمین قرار دیا گیا جس میں بحیرہ روم کی بندرگاہ حیفہ برطانیہ کے سپرد کر دی گئی۔

 اکتوبر 1916 اور نومبر 1917 کے درمیان برطانیہ کا موقف ڈرامائی طور پر عدم دلچسپی سے بدل کر فلسطین کو اپنے سامراجی اقتدار میں شامل کرنے کے عزم میں ڈھل گیا۔ اس تبدیلی میں ایک اہم کردار وادی سینا میں ہونے والے جنگ تھی۔

جنگ کے ابتدائی برسوں میں برطانیہ نے نہر سوئز کا دفاع اپنے مغربی کنارے سے کیا۔ کیوں کہ جزیرہ نما سینائی میں کنویں یا پانی کا انتظام موجود نہیں تھا اس لیے وہاں فوج تعینات نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس وجہ سے عثمانیوں کو سینا میں کھلی پیش رفت کا موقع مل گیا اور انہوں نے نہر سوئز زون میں فروری 1915 اور اگست 1916 میں دو حملے کیے۔ جدید توپ خانے پانچ یا اس سے بھی زیادہ میل کے فاصلے سے نہر میں موجود بحری جہازوں پر حملہ کر سکتے تھے۔ جنوبی فلسطین میں جہاں کنوؤں کا پانی ہر وقت دستیاب ہوتا تھا وہاں سے دشمن اپنے لشکر کے ذریعے نہر سوئز میں بحری جہازوں کے سلسلے پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتا تھا۔

عثمانیوں کو جزیرہ نما سینا سے باہر نکالنے کے لیے انگریزوں نے 1916 کے باقی اور 1917 کے ابتدائی مہینے ایک سست رو مہم جاری رکھی، سامان کی رسد کے لیے ریلوے لائن اور فوجیوں اور ان کے جانوروں کے لیے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پائپ لائن بچھائی۔ انہیں غزہ میں عثمانی افواج کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے مارچ اور اپریل 1917 میں برطانیہ کے بھرپور حملوں کے خلاف اپنی سرزمین کا مضبوطی سے دفاع کیا۔

غزہ کی پہلی اور دوسری لڑائی کا خاتمہ برطانیہ کی شکست پر ہوا جس نے برطانیہ کے اس خدشے کو مزید ہوا دی کہ فلسطین سے کسی بھی وقت دشمن خطرناک حملہ کر سکتا ہے۔ جنگ کا یہی تجربہ تھا جس نے برطانیہ کی فلسطین سے عدم دلچسپی کو اس پر تسلط قائم کرنے کے عزم سے بدل ڈالا۔

 بالآخر 31 اکتوبر 1917 کو بئر السبع (Beersheba) کے معرکے میں برطانوی افواج نے جنوبی فلسطین میں عثمانی دفاع کو توڑ ڈالا اور تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئی بیت المقدس کی طرف بڑھنے لگی۔ دسمبر میں بیت المقدس نے جس نے دسمبر میں خود کو برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ بئر السبع میں کامیابی کے تین دن بعد بالفور اعلامیہ جاری ہوا جس میں برطانوی حکومت نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں وطن قائم کرنے کا وعدہ کیا۔

صیہونی عزائم کی پشت پناہی

یہ بات واضح ہے کہ جنگ کے دوران ہونے والے تجربے نے فلسطین کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کی برطانوی دلچسپی کو جنم دیا۔ ہم بآسانی اکتوبر 1916 کے سائیکس پیکو معاہدے اور اکتوبر 1917 کے معرکۂ بئر السبع کے درمیان اس نئی دلچسپی کی نشان دہی کر سکتے ہیں۔ تاہم سامراج کی حکمت عملی میں اس تیز رفتار تبدیلی کے اندر ایک اور عنصر بھی شامل تھا جس کی وضاحت ضروری ہے: فلسطین میں صیہونی عزائم کی پشت پناہی کا فیصلہ۔

 پہلی جنگ عظیم سے پہلے برطانیہ کو صیہونیت میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی۔ 1913 میں دفتر خارجہ کے مستقل انڈر سیکرٹری سر آرتھر نکلسن نے عالمی صیہونی تنظیم کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن ناحوم سوکولو سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے سوکولو سے ملاقات کے لیے اپنے سیکرٹری کو بھیج دیا، جب سیکرٹری نے نکلسن کو ملاقات کے بارے میں بتایا تو ان کا جواب تھا ’بہرحال ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم صیہونی تحریک کی حمایت نہ کریں۔ یہودیوں کی آبادکاری ایک اندرونی انتظامی معاملہ ہے جس پر ترکی میں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔‘

جولائی 1914 میں سوکولو نے دوبارہ ملاقات کا وقت حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی برطانوی حکام نے صیہونیت میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دفتر خارجہ کے ریکارڈ کے مطابق جواب دیا گیا کہ ’اس طرح سے کسی کا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘ اس طرح دوسری ملاقات کی کوششیں بھی بےسود ہی گئیں۔

 اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ 1914 میں صیہونیت بہت ہی محدود پیروکاروں والی خیال پسند تحریک سمجھی جاتی تھی۔ برطانیہ میں موجود تین لاکھ کی یہودی برادری میں اس کے اراکین آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں تھی اس لیے حاشیہ پر موجود ایسی تحریک جس نے خوابوں کی دنیا میں رہنے والے یہودیوں کے مختصر سے حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اس پر ’وقت ضائع کرنے‘ کی واقعی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔

دوسری بات یہ کہ آج کی نسبت اس وقت برطانوی معاشرہ یہودیوں کے انتہائی خلاف تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ برطانوی حکام یہودی تحریکوں کی وکالت کریں گے۔

1917 میں آ کر برطانیہ نے صیہونیت میں ایک سٹریٹیجک اہمیت کا اندازہ کیا اور اس تحریک کے حوالے سے اس کا رویہ بدلنا شروع ہوا۔ 1917 میں روسی انقلاب سے شکوک و شبہات جنم لینے لگے کہ روس جنگ عظیم سے وابستہ اپنے وعدوں پر قائم رہے گا یا نہیں۔

برطانیہ میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا اگر یہودیوں کو لگا کہ اتحادیوں کی فتح سے فلسطین میں صیہونی اہداف کا راستہ ہموار ہو رہا ہے تو ممکن ہے الیگزینڈر کیرنسکی کی عارضی حکومت میں شامل یہودی روسی فوج کی مزید پیش قدمی کے لیے حوصلہ افزائی کریں۔

 کچھ دوسرے افراد کی رائے تھی کہ امریکہ میں موجود یہودی امریکی صدر ووڈرو ولسن کو ہوبہو اسی وجہ سے جنگ میں شامل ہو کر اتحادیوں کے حق میں اپنا وزن ڈالنے پر مجبور کریں گے۔ امریکہ بہت سست روی سے جنگ میں شریک ہوا اور اس کے عوام جنگی صورت حال کے بارے میں گرم جوشی سے کام نہیں لے رہے تھے۔

اسی وجہ سے امریکہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان 1917 میں جا کر کیا۔ ممکن ہے صیہونیت کے حق میں سودمند حکمت عملی نے بااثر یہودیوں کے ذریعے وائٹ ہاؤس کو جنگ میں شرکت کے لیے کوششیں تیز کرنے کی جانب راغب کیا ہو۔ جیسا کہ تاریخ دان ٹام سیگیو کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر یہودیت مخالفت رویے کو تبدیل کرنے کی یہ صیہونی کوششیں ہی تھیں جس سے عالمی سیاست اور مالیات کو فائدہ پہنچایا۔

 لائیڈ جارج اور ان کی حکومت کسی بھی ایسے اتحاد کے لیے تیار بیٹھی تھی جو پہلی جنگ عظیم کے لامتناہی سلسلے کو اتحادیوں کی فتح کے ساتھ ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہو، اس لیے انہوں نے صیہونی تحریک کا سہارا لیا۔ 

ڈرامائی موڑ

1917 میں برطانیہ کی صیہونیت کے ساتھ شراکت داری کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ محض ایک سال قبل سائیکس نے پیکو کے ساتھ عثمانی عرب علاقے کی تقسیم پر اتفاق کیا تھا۔ فرانس اور روس کے فلسطین کو بین الاقوامی اختیار کے سپرد کرنے پر اتفاق اور اپنے مفادات واضح کرنے کے بعد یہ تقریباً ناممکن تھا کہ روس برطانیہ کے نئے دعووں پر ہمدردانہ رویہ اپنائے۔

 تقسیم کی حکمت عملی میں اس طرح کی ڈرامائی تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے برطانیہ کو کسی تیسرے فریق کی ضرورت تھی۔ صیہونی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے برطانیہ یہ دعوی کر سکتا تھا کہ وہ اپنے خود غرضانہ سامراجی مفادات کے لیے نہیں بلکہ ایک تاریخی سماجی انصاف کے پیش نظر یورپ کے ’یہودیوں کے مطالبے‘ کے مطابق انہیں بائبلی وطن واپس آنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

اسی جذبے کے تحت لارڈ بالفور نے لارڈ روتھ چائلڈ کو اپنے انتہائی اہم خط میں برطانیہ کی بھرپور کوششوں کی یقین دہانی کروائی۔ ایسا لگتا تھا برطانیہ فلسطین کو صیہونیوں کے حوالے کرنے کی بات کر رہا ہے لیکن دراصل لائیڈ جارج کی حکومت فلسطین کو اپنے لیے محفوظ بنانے کی خاطر صیہونی تحریک کو استعمال کر رہی تھی۔

اس طرح بالفور نے برطانوی حکومت کا عہد ظاہر کرتے ہوئے اہم اعلان کیا کہ وہ ’فلسطین میں یہودیوں کی خاطر قومی گھر کے قیام‘ کے لیے ’سہولت‘ فراہم کرنے کے لیے اپنی ’بہترین کوششیں‘ کرے گا۔ نوٹ: ایک ’قومی گھر‘ نہ کہ ’ریاست‘ اور ’یہودیوں‘ کے لیے صیہونیوں کے لیے نہیں۔

اگرچہ بہت سے ناقدین نے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کی ہے کہ بالفور اعلامیہ میں فلسطینیوں کا نام لینے کے بجائے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ’فلسطین میں موجود غیر یہودی برادریاں‘ کہا گیا ہے لیکن میرے خیال کے مطابق اس اعلامیے میں یہودیوں اور عربوں کی قومی شناخت کو یکساں طور پر غیر متعین رکھا گیا ہے۔ یہ اعلامیہ قومی حقوق کے بجائے ’شہری اور مذہبی حقوق‘ کے بارے میں تھا۔

دوسرے الفاظ میں بالفور اعلامیہ یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ نہیں ہے۔ میں اسے ایک بھرپور اقلیتی برادری کے قیام کے طور پر دیکھتا ہوں جسے برطانیہ کے نئے نوآبادیاتی علاقوں کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کی غرض سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ فلسطینی عربوں پر مشتمل اکثریتی آبادی کی متوقع مخالفت کے سامنے برطانیہ کو اپنا اختیار برقرار رکھنے کے لیے صیہونی مکمل قابل اعتماد شراکت دار نظر آتے تھے کیونکہ وہ فلسطین میں اپنی حیثیت کے لیے برطانیہ پر ہی انحصار کر رہے تھے۔

فلسطینی مخالفت

برطانیہ کو اس بات میں ذرا بھی شبہ نہیں تھا کہ فلسطینی اس کے منصوبوں کی مخالفت کریں گے۔ جنرل ایڈمند ایلن بی کے دسمبر 1917 میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد اس کے بہت سے کارندے موجود تھے تاکہ مقامی آبادی کے سیاسی خیالات کے بارے میں قابل اعتماد خفیہ رپورٹیں حاصل کی جا سکے۔

اگر برطانیہ نے 1919 کے موسم گرما کے دوران امریکی کنگ کرین کمیشن کی رپورٹس پڑھنے کی زحمت گورا کی ہوتی تو ان کے پاس تمام اعداد و شمار موجود پورے جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ بالفور کا وعدہ کامیابی سے ہمکنار ہونے والا نہیں۔

کنگ کرین رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فلسطین کی غیر یہودی آبادی جو کل آبادی کا دس فیصد ہے وہ پورے صیہونی منصوبے کے شدید خلاف ہے۔ مختلف اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس پر فلسطین کی آبادی اس سے زیادہ متفق ہو۔‘

 رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ’کمیشن نے جس بھی برطانوی آفیسر سے پوچھا اس کا یہی خیال تھا کہ صیہونی منصوبہ ہتھیاروں کے بغیر کسی طرح بھی لاگو نہیں کیا جا سکتا۔‘ برطانیہ آگاہ تھا کہ فلسطینی ان کے منصوبوں کی کیسی سخت مخالفت کریں گے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ مقامی سطح پر ایسی مخالفت کے پیش نظر برطانیہ کو لگا کہ صیہونی آبادکار برادری کے ذریعے وفادار اتحادی قائم کر کے وہ زیادہ بہتر فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔ یہودی آباد کار یورپی تھے اور ثقافتی طور پر فلسطینی عربوں کے مقابلے میں انگریزوں کے زیادہ قریب تھے (اگرچہ برطانوی حکام نے یہودیوں کو ’مشرقی بنانا‘ جاری رکھا اور ڈارون کے سماجی ارتقا کے نظریے (کی غلط تعبیر) کے تحت مانے میں انہیں اہل برطانیہ سے کم تر درجے پر دیکھا)۔

ایک انتہائی منظم یہودی اقلیت جسے اکثریتی آبادی دشمنی کی نظر سے دیکھتی ہے، وہ اپنی حیثیت کی حفاظت کے لیے مکمل طور پر اہل برطانیہ پر انحصار کرے گی۔ اپنی اس مجبوری کی وجہ سے وہ قابل اعتماد بھی تھے۔ کیوں کہ برطانیہ مقامی دشمنوں سے صیہونی آبادکاروں کی حفاظت کر رہا تھا سو شراکت داری کے لیے ان پر بھروسہ کر سکتا تھا۔

سلطنت کا بھاری پتھر

’محتاج اور قابل اعتماد‘ سلطنت برطانیہ کے لیے بھاری پتھر تھے۔ انگریزوں کے مقابلے میں فرانسیسیوں نے اقلیتی برادری سے اپنا کام کہیں زیادہ  دیدہ دلیری سے نکالا۔ ماؤنٹ لبنان میں مارونی ایسی ہی اقلیتی برادری تھی جنہوں نے فرانسیسی اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ فرانس نے شام کی علوی اور دروز برادریوں کے ساتھ ایسی ہی شراکت داری کرتے ہوئے انہیں شام میں فرانسیسی سلطنت کے تحت خود مختار چھوٹی ریاستوں کی پیشکش کی۔

 اپنی طرف سے برطانیہ نے شریف مکہ حسین کے بیٹوں سے ایک حکمت عملی کے تحت رجوع کیا جسے شریفین سولیوشن کہا جاتا ہے، جس کے مطابق ہاشمی شریفوں کو اردن اور عراق کے تخت پر بٹھانا تھا۔

اہل برطانیہ پراعتماد تھے کہ اپنے ہی ملکوں میں اجنبی اور عوامی تائید یا مالی استحکام سے محروم امیر عبداللہ اردن میں اور شاہ فیصل عراق میں پوری طرح ان پر انحصار کریں گے اس لیے ان ریاستوں کو چلانے کے لیے ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کے پاس فلسطین کے لیے کوئی شریفین سولیوشن نہیں تھا۔ اس کے بجائے صیہونی آباد کار برادری نے یہ کردار پورا کیا۔

لیکن صیہونی صرف اس وقت تک محتاج اور قابل اعتماد رہیں گے جب تک وہ اقلیت میں ہیں۔ اگر فلسطین میں ان کی اکثریت ہو گئی تو وہ آزادی کی جدوجہد شروع کر دیں گے۔ برطانیہ کو اس امر میں بالکل بھی شک نہیں تھا کہ صیہونیت ایک قوم پرستانہ تحریک ہے۔

1922 میں سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا وائٹ پیپر جس قدر فلسطینی عربوں کے مخالفانہ جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھا اتنا ہی فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کو ان کی حدود یاد دلانے کے لیے تھا۔ جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ چرچل نے ’جس طرح انگلینڈ انگریزوں کا ہے اسی طرح فلسطین یہودیوں کا ہے‘ کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے ’فلسطین میں عرب آبادی، زبان یا ثقافت کو طاق نسیاں پر دھرنے یا زیر نگیں کرنے کو‘ پوری طرح رد کر دیا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بالفور اعلامیہ کے ’ضوابط یہ نہیں کہتے کہ پورے فلسطین کو یہودیوں کے قومی گھر میں تبدیل کر دیا جائے بلکہ فلسطین کے اندر ایک ایسا گھر قائم کیا جائے۔‘

چرچل یہ کہہ رہے تھے کہ فلسطین کی یہودی برادری کو ایک منظم اقلیت کے طور پر رہنا چاہیے اور ان حدود کے اندر رہتے ہوئے وہ یہودیوں کے قومی گھر منصوبے کے لیے برطانیہ کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔‘

’ہاتھوں سے نکلتا تنازع‘

یقیناً برطانیہ یہودیوں کے قومی گھر منصوبے کو آگے بڑھانے اور فلسطین میں قیام امن کے لیے کبھی بھی متوازن صورت حال پیدا نہیں کر سکا۔ 1929 کے فسادات کی لہر، 1931 اور 1933 کے دوران نازیوں کے اقتدار پر قبضے اور 1935 میں یہود مخالف نورمبرگ کے بعد یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کی ہجرت کے پس منظر میں انگریزوں نے انکوائریوں اور وائٹ پیپرز کا ایک منظم سلسلہ شروع کیا تھا۔

1930 سے 1931 کے درمیان اوسطاً سالانہ پانچ ہزار مہاجرین جبکہ 1932 کے دوران یہ تعداد بڑھ کر ساڑھے نو ہزار، 1933 میں 30 ہزار، 1934 میں 42 ہزار جبکہ 1935 میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 62 ہزار تک جا پہنچی۔ 1936 میں یہودیوں آبادکاروں کی تعداد فلسطین کی کل آبادی کے دس فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد تک جا پہنچی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

یہودیوں کی آبادکاری اور زمینوں کی خریداری سے معاشی کساد بازاری بڑھی جس کے نتیجے میں فلسطین کی آبادی میں اضطراب اور پریشانی زور پکڑنے لگی۔ 1936 میں فلسطینیوں نے برطانوی اقتدار اور اس اقتدار کے ذریعے آباد کیے گئے یہودیوں کے خلاف پوری طرح علم بغاوت بلند کر دیا۔   

عرب بغاوت کے پہلے مرحلے میں برطانیہ انکوائری کمیشن کے ذریعے اسے روکنے میں کامیاب رہا۔ لیکن 1937 میں پیل کمیشن کی رپورٹ نے برطانوی اقتدار کو ناکامی سے منسوب کیا: ’ایک چھوٹے سے ملک میں دو قومی برادریوں کے درمیان ناقابل گرفت تنازعہ شروع ہو چکا ہے۔ تقریباً ایک ملین عرب کھلے عام یا اندر اندر سے چار لاکھ یہودیوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ ان کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں، ان کی ثقافتی و سماجی زندگی اور ان کا طرز فکر و عمل بھی ان کی قومی امنگوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں۔ یہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔‘

دوسرے الفاظ میں بالفور اعلامیہ کے بیس سال بعد پہلی مرتبہ برطانیہ نے تسلیم کیا کہ اس کی خواہشِ اقتدار نے حریف اور غیر مطابقت پذیر فلسطینی عربوں اور صیہونیوں کے درمیان تصادم شروع کروایا۔ پیل کمیشن کے مطابق اس صورت حال کا حل برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے اور فلسطین کی سرزمین یہودیوں اور عربوں کی الگ الگ ریاست کی شکل میں تقسیم سے ہی ممکن ہے جنہیں  برطانیہ ’عراق میں قائم ہونے والی مثال کے مطابق‘ بذریعہ معاہدہ چلائے گا۔

پہلی بار آپ کے ماتھے پر سوالیہ انداز میں شکنیں نمایاں ہوئی ہیں کہ برطانیہ یہودی اور عرب ریاستوں کو ’خود مختار‘ کیسے بنانا چاہتا تھا۔ 1930 کے اینگلو عراق معاہدے میں خارجہ اور عسکری امور برطانیہ کے سپرد ہوئے جو ایک طرح سے نوآبادیاتی طرز کی تشکیل نو تھی۔

نوآبادیاتی تعلقات کی تشکیل نو

میں دلیل سے یہ بات ثابت کروں گا کہ پیل کمیشن کی سفارشات فلسطین میں نوآبادیاتی تعلقات کی تشکیل نو کر رہی تھیں اس کا خاتمہ نہیں۔ 1937 کے تقسیم والے نقشے سے بات شروع کرتے ہیں، پیل کمیشن نے گلیلی سے سفید، ٹائبیریاز اور الناصرہ (Nazareth) سمیت، بیسان میں مغرب کی سمت میں مڑنے والی سرحد سمیت عکرہ اور حیفہ سے ہوتی ہوئی تل ابیب اور جافا سے ایک طرح سے زمینوں کا ایل تشکیل دیتے ہوئے فلسطین کا تقریباً ایک تہائی حصہ یہودی ریاست کے لیے دے دیا۔

 جب آپ نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو دو چیزیں فوراً واضح ہو جاتی ہیں، پہلی کہ انگریزوں نے فلسطین کی اہم بندرگاہوں اور اقتصادی مراکز کو مرتکز کر کے اپنے صیہونی شراکت داروں کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ دوسرا زیادہ اہم کہ اس قدر چھوٹی سی ریاست عرب پڑوسیوں لبنان، شام اور فلسطینی سرزمینوں سے گھری ہوئی ہو گی جن کی صیہونیوں سے دشمنی ڈھکی چھپی بات نہیں، سو یہودی ریاست اپنے تحفظ کے لیے ہمیشہ برطانیہ پر انحصار کرے گی۔

 لہذا صیہونی تحریک کو ریاست کا درجہ دینے کے بجائے برطانوی فلسطین میں اپنے اقتصادی مرکز کو از سر نو منظم کرتے ہوئے خود کو مضبوط کر رہے تھے اور اس علاقے کو اپنے محتاج اور قابل اعتماد صیہونی شراکت داروں کے حوالے کر رہے تھے۔ بقیہ دو تہائی فلسطین عبداللہ کے زیر اقتدار ٹرانس جورڈن علاقے میں شامل کیا جانا تھا اور ٹرانس جورڈن کا مینڈیٹ ’آزادی‘ کے معاہدے سے تبدیل کیا جانا تھا۔

دوسرے الفاظ میں بالآخر انگریز فلسطین پر شریفین سولیوشن کا ہی اطلاق کر رہے تھے اور یہ مصائب سے گھری سرزمین کو اپنے محتاج اور قابل اعتماد حکمران عبداللہ کے سپرد کر رہے تھے۔ 1937 کا پیل کمیشن منصوبہ یہودیوں یا عربوں کی آزادی کا اعلان نہیں تھا۔ بلکہ یہ عراق میں آزمائے جا چکے خطوط پر فلسطین میں نوآبادیاتی تعلقات کی تشکیل نو کی کوشش تھی، ایک معاہدے کے ذریعے سامراجی تعلقات کو دوبارہ سے استوار کرنے کا بندوبست۔

جزوی آزادی

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پیل کمیشن کی سفارشات فلسطینیوں نے مسترد کر دیں جس کے نتیجے میں مزید دو برس تک شدید یورش جاری رہی اور عرب بغاوت کو دبانے کے لیے برطانیہ کو پچیس ہزار فوجی اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑا۔

امن کی بحالی کے لیے انگریزوں نے 1939 میں ایک حتمی وائٹ پیپر جاری کیا جس میں تقسیم کے نئے خد و خال پیش کیے۔ جس کے مطابق اگلے پانچ برس تک فلسطین میں آ کر آباد ہونے والے یہودی سالانہ 15 ہزار سے زیادہ نہیں آئیں گے یا ان کی تعداد کل ملا کر 75 ہزار سے آگے نہیں بڑھے گی۔ اس سے فلسطین کی یہودی آبادی 35 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ پانچ سال کے بعد اکثریتی آبادی کی رضامندی کے بغیر مزید آبادکار فلسطین میں داخل نہیں ہوں گے اور اس معاملے پر اکثریتی آبادی کی رائے سب پر روز روشن کی طرح عیاں تھی۔

1949 میں فلسطین اکثریت کی حکمرانی کے ساتھ آزاد ہو جائے گا (دوبارہ غالباً ایک طرح کی جزوی آزادی جو انگریزوں نے پہلے ہی عراق کو دے رکھی تھی اور اب 1939 میں مصر کو بھی)۔ 1939 کے وائٹ پیپر کی جزویات میں قابل ذکر چیز برطانیہ کی یہودی آبادکاروں کی تعداد کو محدود کرنا ہے، اگلے پانچ برس تک سالانہ پندرہ ہزار، جس سے ان کی کل آبادی 35 فیصد پہنچ جائے گی۔ بس یہاں فل سٹاپ۔ اس منصوبے کے تحت نئے آبادکار کار یہودی ہمیشہ اقلیت میں رہیں گے اور مخالف فضا میں اپنے تحفظ کے لیے پورا انحصار برطانیہ پر کریں گے۔

اگر برطانیہ یہودی برادری کو آبادی کا پچاس فیصد ہونے دیتا تو اسے یہودیوں کی طرف سے فلسطین سے نکلنے کے لیے اسی مطالبے کا سامنا کرنا پڑتا جو فلسطین کی عرب آبادی کر رہی تھی۔

صیہونیت کے فلسطین میں سربراہ ڈیوڈ بین گوریان کی زیر قیادت یہودیوں نے وائٹ پیپر مسترد کر دیا لیکن جرمن نازیوں کے ساتھ جنگ کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر انہوں نے مشہور بات کہی کہ نازیوں سے ایسے جنگ لڑیں گے جیسے کوئی وائٹ پیپر تھا ہی نہیں اور وائٹ پیپر کے خلاف ایسے جد و جہد کریں گے جیسے جنگ کا مرحلہ درپیش تھا ہی نہیں۔

 کچھ دیگر زیادہ بنیاد پرست صیہونیوں نے کھلم کھلا برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے یہودیوں کی بغاوت کا عندیہ دیا جو فلسطین میں برطانیہ کی حیثیت کے لیے مہلک ثابت ہو گی۔ جیسا کہ  ارگون نے جنوری 1944 میں اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا ’اب یہودیوں اور برطانوی انتظامیہ کے درمیان اسرائیل میں کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔ ہمارے لوگ اس حکومت کے خلاف میدان جنگ میں ہیں، آخری دم تک جنگ۔‘

آخری مذمت

1944-47 کی یہودی بغاوت برطانوی مینڈیٹ کے لیے مہلک ثابت ہوئی جس میں اہلکاروں کے ٹارگٹڈ قتل، بنیادی تعمیراتی ڈھانچے پر حملے، پولیس سٹیشنوں پر بم دھماکے اور 1946 میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر بمباری اہم ترین واقعات ہیں۔ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد جن میں اکثریت ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کی تھی، بحری جہازوں کے ذریعے فلسطین کے ساحلوں کا رخ کرنے لگی اور قوم پرستانہ جذبات سے لبریز یہودی آبادی میں اضافہ ہونے لگا جس سے برطانیہ کی یہودی آبادکاروں کو محدود کرنے کی حکمت عملی ناکارہ ہو کر رہ گئی۔

لیکن میرے خیال میں برطانوی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل یہودیوں کی حمایت سے محرومی ثابت ہوئی۔ ایک منظم یہودی اقلیت کے ساتھ عرب اکثریت کی مخالفت کے باوجود برطانیہ فلسطین پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی امید کر سکتا تھا۔ قوم پرستی کی حریفانہ اور ناموافق فضا میں برطانیہ کے پاس اس علاقے سے دستبردار ہونے اور اسے اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

اپنی بات کو سمیٹے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ فلسطین میں برطانیہ کا مقصد اس خطے کو ہمیشہ اپنی سلطنت کے حصے کے طور پر برقرار رکھنا تھا، ایک سلطنت جو اس کے خیال کے مطابق کئی نسلوں تک قائم رہے گی۔ فلسطین میں یہودی برادری برطانوی اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک لازمی شراکت دار تھی لیکن محض ایک منظم اقلیتی برادری کے طور پر۔ برطانیہ کبھی بھی فلسطین کو یہودیوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا اور شاہی منصوبوں میں یہودیوں کی حمایت محض شراکت داری کی حد تک محدود تھی۔

انگریز کی مہلک غلطی یہ تصور تھا کہ فلسطین میں ایک دوسرے کی مخالف قوم پرستیوں کو وہ کنٹرول کر لیں گے۔ لیکن جیسے ہی یہودیوں کی تعداد ایک حد سے اوپر چلی گئی، برطانیہ فلسطین میں غیر متعلق ہو کر رہ گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ