پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق پانچ بڑے خطرات

عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔

پاکستان میں کئی سالوں سے مسلسل قحط سالی کے شکار سندھ کے صحرائے تھر میں مقامی لوگ ہر وقت پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں ( تصویر: امرگُرڑو) 

سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کے زیراہتمام 26 ویں ’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا کوپ 26 جاری ہے، جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔

31 اکتوبر سے 12 نومبر کے درمیان جاری رہنے والی اس عالمی کانفرنس میں دنیا کے 197 ممالک کے رہنما کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر غور کررہے ہیں۔

وہ تمام ممالک اور خطے جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے ایندھن اور دیگر ذرائع سے خارج ہونے والی گیسز کا اخراج نہ کرنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی آفتوں سے متاثر ہیں وہ اس کانفرنس سے اپنے لیے کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں۔

عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں 2000 سے 2019 تک دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.56 کھرب امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔

جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

جرمن واچ نے رپورٹ میں کہا کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔

پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور 19 سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں۔

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جائزہ لیا کہ پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کن خطرات کا سامنا ہے۔

1۔ سیلاب 

ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین پاکستان میں موسمی حالات کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ 

2010 میں آنے والے سیلاب جسے ’پاکستان سپر فلڈ 2010‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے ساتھ پاکستانی معشیت کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، چاروں صوبوں کی صوبائی  ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم اے)، فیڈرل فلڈ کمیشن اور دیگر سرکاری محکموں کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب سے پنجاب کے 80 لاکھ افراد متاثر ہونے کے ساتھ صوبے کو 900 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

سندھ میں 36 لاکھ افراد متاثر اور 1300 ارب روپے کا نقصان ہوا، خیبر پختونخوا کو چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا اور سیلاب کے دوران صوبے میں ایک ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ 3500 ملین روپے لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے تقریباً سات لاکھ لوگ متاثر اور 190 ملین روپے کا مالی نقصان ہوا تھا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں تقریباً تین لاکھ افراد متاثر اور 2300 ملین کے مالی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔

موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) میں پاکستان کے نمائندہ اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیشگی اندازہ نہ لگائے جانے اور مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشیئرز پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی آفات میں سے ایک سیلاب پاکستان کے لیے سب سے بڑا یا نمبر ون خطرہ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق پاکستان کے مختلف حیاتیاتی تنوع والے علاقوں میں تقریباً ہر سال ہی سیلاب آنا معمول بن چکا ہے۔

سیلاب کے مختلف ذرائع بتاتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا: ’پگھلتے گلیشیئرز اور شدید مون سون بارشوں کے بعد دریاؤں میں طغیانی کے بعد آنے والے دریائی سیلاب، بھارت کی جانب شدید بارشوں کے بعد پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے سے آنے والے سیلاب، اربن فلڈنگ یا شہری سیلاب، پہاڑوں کی ڈھلون پر واقع انسانی آبادیوں میں اچانک بہا لے جانا والا سیلاب یا فلیش فلڈنگ اور سب سے زیادہ خطرناک گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلیں پھٹنے سے آنے والا سیلاب یا گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (گلوف) خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے اترنے والے پانی سے میاں والی، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان سمیت آس پاس کے علاقوں اور خیبرپختونخوا کے چھانگلہ، مردان بُنیر سمیت پہاڑی ڈھلان پر واقع علاقوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تواتر سے آنے والے فلیش فلڈ اور بلتستان اور خیبر پختونخوا میں گلوف کے رونما ہونے میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔‘

پاکستان کے نقشے پر درمیان سے ایک لکیر کی صورت میں چلنے والے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر ایک سو کلومیٹر کی پٹی میں ملک کے اکثر بڑے شہر، زراعت اور صنعتیں واقع ہیں۔ اس علاقے میں آنے والے دریائی سیلاب پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلینج ہیں۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس ایک سو کلومیٹر رقبے میں سیلاب سے نہ صرف انسانی آبادیاں، عمارتوں، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑی فصل کے بہہ جانے سے خوراک کی شدید قلت کا خطرہ بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔‘

اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

جب یہ جھیلیں انتہائی سطح پر بھر جاتی ہیں تو اچانک پھٹ جاتی ہیں۔ ان جھیلوں کے پھٹنے کے بعد اونچے پہاڑ کی چوٹی سے لاکھوں گیلن پانی کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ ایک خطرناک سیلاب آتا ہے، جو نیچے موجود پوری وادی کو بہا لے جاتا ہے۔

اس قسم کے سیلاب سے انسانی آبادی کے ساتھ دریا پر بنے پل اور پانی سے چلنے والے چھوٹے بڑے بجلی گھر بہہ جانے کے ساتھ ان علاقوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے سیلاب کو گلوف کہا جاتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے ان علاقوں میں گلوف کے نقصان سے بچنے کے لیے کئی سالوں سے پراجیکٹ چلایا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو گلوف سے محفوظ رہنے کے لیے آگاہی کے ساتھ ان کے نقصان کی کسی قدر تلافی کی جاسکے۔

یواین ڈی پی کی جانب سے پاکستان کی وفاقی وزاعت برائے موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ چلنے والے اس پراجیکٹ کی فنڈنگ اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا ’گرین کلائمٹ فنڈ‘ کرتا ہے اور اب تک تقریباً تین کروڑ 57 لاکھ امریکی ڈالرز کی فنڈنگ کی جا چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یواین ڈی پی کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقعے بڑے پہاڑی سلسلوں بشمول ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنے سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں تین ہزار 44 جھیلیں بن گئی ہیں، جن میں سے 33 جھیلوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ کر گلوف کا سبب بن سکتی ہیں اور ان علاقوں کا 26.7 فیصد زمینی علاقہ اور 71 لاکھ انسانی آبادی کا 22 فیصد مکمل طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

یواین ڈی پی کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں گلوف کی زد میں آنے والے دو کروڑ 90 لاکھ انسانی آبادی رکھنے والے 10 اضلاع ہیں۔ یہ آبادی ملک کی کُل آبادی کا 15 فیصد ہے۔

’گرین کلائمٹ فنڈ‘ کی فنڈنگ سے چلنے والے گلوف ون نامی پراجیکٹ کے سابق پراجیکٹ مینیجر سید زاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس وقت گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے گلیشیئرز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث کمزور ہیں اور جون سے اگست 2022 تک کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔‘

2۔ خشک سالی اور شدید قحط سالی 

پاکستان میں جہاں سیلاب کو سب سے بڑا اور نمبر ون خطرہ قرار دیا جارہا ہے، وہیں اسی ملک میں کئی سالوں سے مسلسل جاری خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی کو دوسرا بڑا یا نمبر ٹو خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔

’سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جبکہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔ وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔‘

ان بارانی علاقوں میں خشک سالی کے بعد ایک طرف تو مسلسل قحط سالی ہے اور دوسری طرف گذشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔

عالمی تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ کی حالیہ دنوں میں ’کوسٹ آف کلائمٹ ان ایکشن: دسپلیسمنٹ اینڈ ڈسٹریس مائگریشن‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سطح سمندر میں اضافے، صاف پانی کی قلت، فصلوں کی پیداوار میں کمی، حیاتیاتی تنوع کے نظام میں بگاڑ اور قحط سالی کے باعث 2020 تک چھ لاکھ 82 ہزار لوگ موسمیاتی مہاجریں بن کر نقل مکانی کرگئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 2050 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً دو لاکھ افراد موسمیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔

جنوبی پنجاب کے روہی اور چولستان صحرا، سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر یا وائٹ ڈیزرٹ، نارا صحرا، کاچھو، کوہستان اور لاڑ، بلوچستان کے مکران کوسٹ سمیت آواران، بلوچستان کے قلات، چاغی، نئوکنڈی اور ژوب میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث مقامی لوگوں کی اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔

سندھ کا صحرائے تھر قحط سالی سے متاثر خطوں میں سرفہرست ہے جہاں کئی سالوں سے بھوک کے باعث خواتین اور نومولود بچوں کی اموات کی خبریں مقامی میڈیا میں چھپتی رہتی ہیں۔

3۔ سطح سمندر میں اضافہ یا سی لیول رائز 

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق سطح سمندر میں اضافہ یا سی لیول رائز پاکستان کا تیسرا بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں سمندر کے قریب انسانی آبادی کو سطح سمندر میں اضافے سے شدید خطرہ ہے۔

سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندری سطح میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے۔ 

 4۔ ٹراپیکل سائیکلون 

بحرالہند اور بحیرہ عرب میں گذشتہ دو دہائیوں میں ٹراپیکل سائیکلون بننے میں تیزی آگئی ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’ماضی میں کئی سالوں بعد کوئی ٹراپیکل سائیکلون بنتا تھا، مگر اب کلائمٹ چینچ کی وجہ سے ہر سال تین سے چار سائیکلون بننا عام بات ہوگئی ہے۔ پاکستان سے تو سائیکلون بڑی تعداد میں نہیں ٹکراتے مگر پاکستان کے نزدیک سے گزرنے کے باعث کراچی، حیدرآباد اور دیگر ساحلی شہروں میں تیز ہوائیں چلنے سے  کافی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔‘

5۔ شدید گرمی کی لہر یا ہیٹ ویو 

ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے پانچواں بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کو ’ایشیا کا گرم ترین‘ شہر اور ’دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک‘ کا درجہ دیا جارہا ہے۔

یہاں درجہ حرارت بقول ماہرین ’انسانی برداشت سے باہر‘ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ جیکب آباد میں موسم سرما میں درجہ حرارت کئی ماہ تک 50 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ رہتا ہے۔ 

کراچی میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔

2015 کے موسم گرما کے دوران کراچی شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اس ہیٹ ویو کے دوران سرکاری طور پر 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ہزاروں اموات ہوئی تھیں۔

2015 کے بعد سے کراچی کو ہر سال مئی اور جون کے مہینوں میں ہیٹ ویو کا سامنا رہتا ہے۔ گذشتہ چند سال سے رمضان کا مہینہ بھی اسی شدید گرم موسم میں آرہا ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر گرم ہونے سے لو پریشر بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف آنا بند ہوجاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔

’اس دوران بجلی کی کھپت میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ عام بات ہے اور جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں پانی نہیں آتا اس لیے ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات