خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات:’چھ بیلٹ دے کر چھ ووٹ ڈالنا چیلنج ہوگا‘

ان بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر 37 ہزار سے زیادہ امیدوار مد مقابل ہوں گے جن میں خواتین نشستوں پر کل تین ہزار 905 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔

پاکستانی خواتین پشاور میں 18 اگست 2005 کو منعقد ہونے والے مقامی حکومتوں انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جمع ہیں (تصویر: اے ایف پی)

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی جانے والی تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور 19 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔

ان بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر 37 ہزار سے زیادہ امیدوار مد مقابل ہوں گے جن میں خواتین نشستوں پر کل تین ہزار 905 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔

یہ انتخابات ویلج و نیبرہڈ کونسل (دیہی علاقوں میں ویلج کونسل اور شہری میں نیبرہڈ کونسل کہا جائے گا) اور تحصیل کونسل کے لیے منعقد کیے جائیں گے جس میں تحصیل کونسل کے چیئرمین کا انتخاب بھی ہوگا۔

اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں سب سے بڑا عہدہ چیئرمین ہے اور تحصیل چئیرمین تحصیل کی سطح کی مقامی حکومت کی ایگزیکٹیو اتھارٹی ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں تبدیلی کرکے ضلعی کونسل  کو ختم کردیا ہے۔ تحصیل اور ویلج نیبرہڈ کونسل دونوں کے لیے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔

جن اضلاع میں انتخابات ہو رہے ہیں ان میں پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، خیبر، مہمند، مردان، صوابی، کوہاٹ، کرک، ہنگو، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، ہری پور، بونیر اور باجوڑ شامل ہیں۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں اور انتخابات کے پہلے فیز میں باجوڑ، ضلع مہمند اور ضلع خیبر میں انتخابات کرائے جائیں گے جبکہ باقی اضلاع میں دوسرے فیز میں انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔

اس سے قبل خیبر پختونخوا میں ضلعی کونسل، تحصیل کونسل اور ویلج ونیبرہڈ کونسل  میں انتخابات منعقد کیے جاتے تھے جس میں ضلعی ناظم کا عہدہ سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا۔

تحصیل کونسل چیئرمین کا انتخاب کیسے ہوگا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کے طریقہ کار اور اس میں ناظمین کے انتخابات کے حوالے سے ماہرین سے بات کی ہے۔

لحاظ علی پشاور کے صحافی اور پارلیمانی رپورٹنگ سمیت بلدیاتی انتخابات کے معاملات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے 2015 کے ایکٹ کے تحت 23 محکمے مقامی حکومتوں کے تحت تھے لیکن اب اس میں ترمیم کرکے اداروں کی تعداد میں کمی لائی گئی ہے اور اب چھ محکمے مقامی حکومتوں کے تحت کیے گئے ہیں۔

لحاظ علی نے بتایا: ’یہ انتخابات ایک ہی دن میں ہوں گے یعنی ویلج نیبرہڈ کونسل اور تحصیل کونسل کے لیے انتخابات ایک ہی دن منعقد ہوں گے جس میں تحصیل چیئرمین  اور ڈوژنل ہیڈ کوارٹر ( پشاور سٹی، مردان سٹی، سیدو شریف سوات، ڈی آئی خان سٹی، کوہاٹ سٹی، بنوں سٹی، ایبٹ آباد سٹی) میں میئر کا انتخاب ہوگا جبکہ ویلج نیبرہڈ کونسل  کے لیے چیئرمین کے انتخابات ہوں گے۔‘

عام لوگ ووٹ کیسے ڈالیں گے؟

اس حوالے سے لحاظ علی نے بتایا کہ اس مرتبہ انتخابات میں ایک ووٹر چھ ووٹ ڈالے گا جو ایک عام شہری مشکل سے سمجھ پائے گا۔

انہوں نے بتایا: ’ہر ایک ووٹر جنرل کونسلر، یوتھ، خواتین، کسان کونسلر، اقلیتی کونسلر اور تحصیل کونسل کے چیئرمین کو ووٹ ڈالے گا۔ بیک وقت چھ ووٹ کاسٹ کرنا ایک  عام شہری کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے۔‘

تحصیل چیئرمین کے انتخاب کے حوالے سے لحاظ نے بتایا کہ تحصیل چیئرمین براہ راست عوام کے ووٹس سے منتخب ہوگا یعنی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا امیدوار نامزد کریں گی اور جس امیدوار نے زیادہ ووٹ لیے وہ تحصیل چیئرمین منتخب ہوجائے گا۔

ویلج و نیبرہڈ کونسل انتخابات

اس دفعہ ویلج و نیبرہڈ (دیہی علاوں میں ویلج کونسل اور  شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسل) کے انتخابات بھی تحصیل کونسل کے انتخابات کے ساتھ ہوں گے۔

ویلج و نیبرہڈ کونسل کے چھ یا سات ممبران کا انتخاب ہوگا جس میں تین جنرل نشستیں، ایک نوجوان، ایک کسان، ایک خاتون اور جہاں پر اقلیت موجود ہو تو وہاں ایک نشست  اقلیت کی ہوگی۔

لحاظ علی نے بتایا کہ اقلیتی نشستوں پر اس مرتبہ انتخابات میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت اب جس ویلج و نیبرہڈ کونسل میں اقلیتی نشست کے لیے کسی نے کاغذات جمع نہ کرائے ہوں تو وہ نشست خالی تصور ہوگی جبکہ پچھلی مرتبہ انتخابات میں جس اقلیتی نشست پر امیدوار کھڑا نہ ہوا تھا تو اس کے لیے الیکشن کمیشن بار بار انتخابات منعقد کراتا تھا۔

اس مرتبہ دو ہزار 383 ویلج و نیبرہڈ کونسل کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں جس میں اقلیتی نشستوں پر صرف 282 ویلج و نیبرہڈ کونسل میں اقلیتی نشستوں پر اقلیتی امیدوار کھڑے ہوئے ہیں۔

لحاظ علی نے بتایا کہ اب تحصیل کونسل میں خواتین ممبران کی انتخاب کا طریقہ کار ایسا ہوگا کہ مجموعی طور پر جتنی خواتین کھڑے ہیں ان میں سے 33 فیصد (ووٹ کے تناسب سے نہیں) خواتین ممبران تحصیل کونسل کی ممبران بنیں گی جبکہ پانچ فیصد یوتھ، پانچ  فیصد اقلیت، اور پانچ فیصد کسان کونسلر تحصیل کونسل کی ممبران بنیں گی۔

لحاظ علی کے مطابق: ’آزاد ممبران کے جیتنے کے بعد ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے تین دن دیے جائیں گے جس میں وہ فیصلہ کریں گے کہ وہ آئندہ چار سالوں کے لیے آزاد حیثیت سے کونسل میں بیٹھنا چاہتے ہیں یا کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان