سندھ بلدیاتی نظام بل: اختیارات میں ’کمی‘ پر اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج

سندھ حکومت نے 26 نومبر کو سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیمی بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرا لیا تھا، جس کے بعد سے پی ٹی آئی، ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی اور جی ڈی اے سراپا احتجاج ہیں۔

اس فائل فوٹو میں سندھ اسمبلی کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ 26 نومبر کو سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیمی بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرالیا تھا (تصویر: اےایف  پی)

سندھ حکومت کی جانب سے اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 منظور کرانے کے بعد صوبے کی حزب اختلاف کی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ اس ترمیمی بل سے بلدیاتی نظام کے اختیارات کم ہو جائیں گے، جس کے خلاف ان جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

سندھ حکومت نے 26 نومبر کو سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیمی بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرا لیا تھا، جس کے خلاف ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، پاک سر زمین پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ارکان اسمبلی نے ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے ان ترامیم کو مسترد کر دیا تھا۔ 

بلدیاتی نظام ترمیمی بل 2021 میں کیا تبدیلیاں کی گئیں؟

ان ترامیم کے بعد سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کو آپریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا ہے۔

 اس کے علاوہ پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے اور انفیکشیز ڈیزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا گیا ہے۔ 

بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد میں کارپوریشنز لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہوں گی۔

یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے، جبکہ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔

ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن 50 لاکھ آبادی والے شہر میں قائم کی جائیں گی۔

ٹاؤن میونسپل کونسل کےارکان کی مدت چار سال ہو گی۔ میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا۔ 

ترامیم کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج 

بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کو پاک سر زمین پارٹی نے بدھ کے روز سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ لوکل باڈی ترمیمی بل آئین سے متصادم ہے۔ ان کے مطابق یہ بل آئین کے آرٹیکل سات، آٹھ، 32 اور 140 اے کی خلاف ورزی ہے اور درخواست کی کہ سندھ لوکل باڈی ترمیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

ایم کیو ایم نے بھی بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ بدھ کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بہادر آباد مرکز پر نئے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ پر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بل کے خلاف 11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی۔ 

جماعت اسلامی نے بھی بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے ادارہ نور حق کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بل کے خلاف 12 دسمبر کو ’کراچی بچاؤ‘ مارچ اور اس کے علاوہ شہر بھر کے بڑے چوراہوں پر احتجاجی ریلیاں اور 15 دسمبر کو لانگ مارچ اور اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بل کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر نے اپنے حالیہ دورے کے دوران نارتھ ناظم آباد میں پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب میں کہا تھا کہ یہ اخذ کرنا کہ کراچی میں میئر شہر کا صحت اور تعلیم کا نظام نہیں چلا سکتا، یہ منصفانہ نہیں ہے اور ہم اسے تسلیم نہیں کرسکتے۔

پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ نے جمعرات کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بل کے خلاف عدالت میں درخواست جمع کرنے کا اعلان کیا۔

سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے جب سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ صحت اور تعلیم کے شعبے بلدیاتی نظام کے زیر انتظام تھے مگر وہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ کچھ ہسپتال بڑے سائز کے ہیں، جن کو سنبھالنا مقامی حکومت کے لیے ممکن نہیں تھا، اس لیے انھیں بلدیاتی حکومت سے لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام کیا ہے۔‘ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں الزام عائد کرتی ہیں کہ یہ ترمیمی بل عجلت میں پاس کرایا گیا ہے، تو جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے ہدایت کی تھی کہ بلدیاتی نظام میں ترامیم یکم دسمبر سے پہلے کرکے نوٹیفکیشن نکالا جائے اس لیے یہ ترامیم جلد کی گئیں۔ ‘

'اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ ان ترامیم سے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کم ہوجائیں گے تو ایسا نہیں ہے۔ ہم میئر کے الیکشن خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے جائز مطالبات پر ترامیم میں نظرثانی کی جاسکتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست