پاکستان، امریکہ اور سرد جنگ دوم

امریکہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں آنے والے دنوں میں چینی سفارت کاری کا طریقہ کار شاید دنیا کو بدلتا ہوا نظر آئے گا۔

امریکی سینیٹرز کا وزیر اعظم عمران خان سے سنیچر کی شام ملاقات کا منظر (پی آئی ڈی)

دسمبر کی 10 تاریخ کو امریکی سینیٹرز کا ایک چار رکنی وفد پاکستان کے 18 گھنٹے کے مختصر دورے پر آیا۔ اس وفد کا تعلق امریکہ کی آرمڈ سروسز اور انٹیلی جنس  کی سینیٹ کمیٹی سے تھا۔

وہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے مل کر واپس روانہ ہوگئے۔ ان کی ملاقات سے متعلق جو وزیراعظم ہاؤس سے اعلامیہ جاری ہوا اس میں پاکستان امریکہ باہمی تعلقات جس میں اقتصادی، سکیورٹی، سفارتی، دہشت گردی اور خطے کے حالات خاص طور پر کشمیر  اور افغانستان پر بات چیت کی۔

وزیراعظم  نے جہاں باہمی تعلقات کو بہتری کی طرف اور زیادہ    پر اعتماد بنانے کی اہمیت پر زور دیا ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کو خطے میں امن اور استحکام بڑھانے کے لیے کردار ادا کرنے کا بھی کہا۔

آرمی چیف کی ملاقات کے بارے میں آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں اس بات کا ذکر تھا کہ فوجی سربراہ نے امریکی سینیٹرز کو   بتایا کہ پاکستان تمام علاقائی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا خواہاں ہے۔

ان دونوں اعلامیوں سے یہ تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان نے امریکی سینیٹرز کو ان کی اہمیت اور خطے میں ان کے کردار کے حوالے سے ایک طریقہ سے تسلی دی کہ پاکستان امریکہ کی اہمیت کو ایک مثبت عنصر سمجھتا ہے نہ کہ وہ اس کے خلاف ہے اور نہ ہی وہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے خواہاں ہیں۔

 یہ باتیں کرنا ضروری تھیں کیونکہ اب پچاس کی دہائی کے بعد یعنی 70 سالوں کے بعد سب سے بڑا سوال جو واشنگٹن سے لے کر اسلام آباد میں گونج کر رہا ہے وہ یہ ہے پاکستان کس کے ساتھ ہے؟ کس بلاک میں جائے گا، امریکہ یا چین کے ساتھ؟

پاکستان کے لیے جو اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے, یہ ایک اہم سوال ہے لیکن اس وقت کے بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے اس کا اٹھنا شاید ناگزیر ہے۔ اس وقت دنیا دوسری سرد جنگ کی شروعات کی زد میں آ چکی ہے۔

 امریکہ اپنے مغربی اور غیر مغربی اتحادیوں کے ساتھ سرد جنگ دوم کا بگل بجا چکا ہے۔ پچھلے جی سیون سمٹ میں تمام ممالک نے چین کو دشمن اور دنیا کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ جانا۔ اس خطرے  کا سامنا کرنے کے لیے جی سیون ممالک اور خاص طور پر امریکہ نے دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے ایک ترقیاتی پروگرام بھی تشکیل دیا۔

یہ تو بظاہر مثبت قدم تھا لیکن اب یہ معاملہ کشیدگی اختیار کر گیا ہے۔ چاہے بحر جنوبی چین ہو، چاہے تائیوان شاید ٹیکنالوجی پہ جنگ اور یا گوادر سی پیک پر پاکستان سے شکایات، امریکہ نے  اپنے اتحادیوں کے ساتھ چین پر ہر قسم کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

حال ہی میں پہلے امریکہ نے بیجنگ اولمپکس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ کچھ دنوں بعد امریکہ کا اتحادی آسٹریلیا نے، جو کہ امریکہ  کے بنائے ہوئے ایک فوجی اتحاد کواڈ کا بھی اہم رکن ہے، بیجنگ اولمپکس کو بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ کہ چین  ایک جمہوری ملک نہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

چند دن پہلے امریکہ نے چین پر ایک سفارتی وار کیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے 110 ممالک کو جمہوریت  کے سربراہی اجلاس پر دعوت دی۔ ان مدعو ممالک کی فہرست پر سوالات اٹھے۔ برطانیہ کے جریدے اکانومسٹ نے اس سمٹ کو سیاسی قرار دیا۔

  بہرحال سب سے ظالم وار امریکہ نے اس اجلاس کے ذریعہ سے چین پر کیا۔ چین کو تو بہرحال بلانا نہیں تھا لیکن اس کی جگہ تائیوان، جو چین اپنا حصہ سمجھتا ہے اسے مدعو کیا۔ امریکہ خود چین پر عمومی طور پر 'ون چائنا' پالیسی چلا رہا ہے۔ امریکہ نے تائیوان کو دعوت دے کر چین کے ساتھ ایک نیا سیاسی اور سفارتی فرنٹ کھولنا چاہا ہے۔

امریکہ اپنے اس عمل سے جو چین سے ردعمل چاہتا تھا وہ اس کو ملا۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں چین نے اپنے دوست ممالک سے بات چیت کی اور اس اجلاس کو دنیا میں کشیدگی پھیلانے کا ایک ہتھیار اور پروپیگینڈا قرار دیا۔ چین کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو بھی فون کیا اور امریکہ کے سربراہی سبمٹ کو خطے اور دنیا میں عدم استحکام پھیلانے کی مہم کی ایک کڑی جانا۔

چین کا پاکستان کو فون کرنا کوئی غیرمعمولی عمل نہیں تھا۔ آخر پاکستان چین دوستی دیرینہ اور سخت آزمائشوں پر پورا اترنے والی دوستی ہے۔ اس دوستی سے پاکستان نے مشکل سے مشکل گھڑی میں مدد لی ہے۔ اگر امریکہ چین سرد جنگ تپش کا شکار ہو گئی تو چین پاکستان سے اور دیگر دوستوں سے حمایت کی توقع رکھے گا۔

  پاکستان کے وزیر خارجہ  کی ان کے چینی ہم منصب سے گفتگو  پر تفصیلی خبر چینی وزارت خارجہ نے ایک اعلامیے کے ذریعے جاری کر دی۔ بیجنگ کے لیے یہ ایک غیرمعمولی عمل تھا۔ وہ اپنی سفارت کاری محتاط طریقے سے کرتے آئے ہیں۔ کبھی دوستوں کو مشکلات میں نہ ڈالنا اور سب کو کشیدگی سے دور رہنے کا سبق سکھلانا چینی قیادت کا طرز عمل رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کو ہمیشہ بھارت کے ساتھ معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کا کہا۔

امریکہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں آنے والے دنوں میں چینی سفارت کاری کا طریقہ کار شاید دنیا کو بدلتا ہوا نظر آئے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہرحال پاکستان نے جمہوریت پر کانفرنس میں شرکت کرنے کا ارادہ کیا ہی نہیں تھا۔ پاکستان کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا اور پھر ایک سربراہی کانفرنس جس کے میزبان امریکی صدر ہیں جن کا اعلانیہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ایک کشیدگی کا ایسا رشتہ ہو کہ انہوں نے اپنا منصب سنبھالنے کے ایک سال بعد تک ان سے کوئی رابطہ نہ کیا ہو، ایسی کانفرنس میں پاکستان کا نہ جانا کوئی حیران کن بات نہیں۔ لیکن امریکہ اس کو چین کی طرف داری میں پاکستان کا اس کو کمتر دکھانا سمجھ رہا ہے۔ اب ایسے حالات میں ایسا تو ہوتا ہی ہے!

پاکستان کو آنے والے دنوں میں یقینا ایک مشکل وقت کا سامنا  ہوگا۔ امریکہ اور چین دونوں کی توقعات پاکستان سے ہیں اور پاکستان کا یہ کہنا کہ وہ کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں ہوگا شاید کافی نہ ہو۔ پاکستان چین اور امریکہ سے تعلقات میں ایک  توازن برقرار رکھے گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟

ایک ملک جس کے ساتھ آپ کے تعلقات کی نوعیت ویسی ہو  جیسی چین کے ساتھ ہیں جس میں کے اقتصادی، عسکری اور سفارتی تعلقات کا ایک فقیدالمثال آرکیٹیکچر ہے یعنی چین اور دوسرا امریکہ جس کے ساتھ تعلقات کا اتار چڑھاؤ اور تعلقات زیادہ تر عسکری نوعیت کے ہوں, کچھ اقتصادی بھی ہوں پر اعتماد کی انتہا کی کمی ہو؟

اس سوال کا جواب پاکستان کو دنیا کو نہیں دینا لیکن اس کے جواب میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو سوچ، عمل اور فیصلوں میں کس طرح سے آگے بڑھے گا۔ یہ سب وہ معاملات ہیں جن پر پاکستان کو  اپنے اندر کے حالات اور اس سرد جنگ دوم کے حوالے سے بہت سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی آرا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ