ملکہ کے بغیر برطانیہ کا مستقبل کیسا ہو گا؟

کیا وہ وقت آگیا ہے جب برطانوی آئین کی سب سے مرکزی خصوصیت یعنی بادشاہت کے مستقبل کے بارے میں بات کی جا سکے؟

ملکہ الزبتھ اپنے شوہر شہزادہ فلپ کی موت کے بعد جس تیزی سے کمزور ہوئیں وہ سب پر واضح ہے (اے ایف پی)

کیا وہ وقت آگیا ہے جب ہم برطانوی آئین کی سب سے مرکزی خصوصیت یعنی بادشاہت کے مستقبل کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ 

اس بحث کو چھیڑنے کی تقریباً ہر کوشش ملکہ کے لیے قوم کی غیر معمولی شفقت کی اینٹوں کی دیوار سے ٹکرا جاتی ہے۔ 

ملکہ کو دنیا بھر میں جو محبت یا تعظیم حاصل ہے، میں دفتر خارجہ میں آٹھ سال تک وزیر کی حیثیت سے اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں۔

لیکن بادشاہ یا ملکہ بادشاہت نہیں ہے۔ بادشاہت کے مستقبل کے سوال کو زیادہ دیر تک پست پشت نہیں ڈال سکتے۔

ملکہ اپنے شوہر شہزادہ فلپ کی موت کے بعد جس تیزی سے کمزور ہوئیں وہ سب پر واضح ہے۔

وہ سینوٹاف تقریب میں شرکت کرنے سے قاصر تھی۔ اب وہ سواری نہیں کرتیں۔ انہیں ایک چھڑی کی ضرورت ہے۔ ان کی عوامی تقریبات میں 2022 تک شرکت متوقع نہیں۔

انہوں نے نئے سوئٹزرلینڈ کے سفیر کی زوم پر آن لائن اسناد قبول کیں۔ وہ تصاویرمیں تھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ کسی مرحلے پر ان کی کمزوری ایک عوامی سوال بن جائے گی۔ ان کے پاس غور کرنے کے لیے دو بڑے سوالات ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ کیا وہ عہدہ چھوڑ دیں جیسا کہ بہت سے دوسرے یورپی بادشاہوں نے بوڑھے اور کمزور ہونے پر کیا ہے۔ یا پوپ بینیڈکٹ کی طرح بن جائیں۔

پاپائیت تاج برطانیہ سے بھی ایک ہزار سال پرانی ہے۔ ایسا صدیوں سے چلا آ رہا ہے کہ پوپ ہمیشہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی انتقال کر جاتے ہیں۔

لیکن بینیڈکٹ نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا - انہوں نے اپنے چرچ کے لیے وہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا جس کی وہ امید کر سکتے تھے اور یہ زیادہ زور دار پوپ کا عہدہ سنبھالنے کا وقت تھا۔

 ملکہ کو جو فیصلہ کرنا ہے اس کی وضاحت  کے لیے آئین کی لغت میں کوئی بھی لفظ نہیں ہے۔ یہ نہ تو دستبرداری ہے، نہ  ریٹائرمنٹ اور نہ ہی کسی کو قائم مقام مقرر کرنا، کیونکہ ان کی تمام ذہنی صلاحیتیں قائم ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہی دربار کی تحریریں لکھنے والے اصطلاح تلاش کر سکتے ہیں لیکن قوم چاہے گی کہ ملکہ الزبتھ آخری چند سال ریاستی کاغذات سے بھرے ہوئے سرخ ڈبے پڑھنے اور بڑے عہدوں پر تعیناتیوں کی بجائے سکون سے گزاریں۔

 دوسرا، بڑا مسئلہ جانشینی ہے۔ وہ آخری زندہ بچ جانے والی خاتون ہیں جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی فوج کی وردی پہنی تھی۔

ان کی یہ خدمت قابل تفہیم ، جو کہ ان کی اولاد کے حقدار ہونے کے خود ساختہ احساس سے بالکل مختلف ہے۔

 ایک بیٹا امریکی نوعمر لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات کے الزامات کے بعد امریکہ نہیں جا سکتا یا شاید برطانیہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ہے، چاہے وہ الزامات کی تردید کرتا ہو۔

ملکہ کے ایک پوتے نے ان کے چچا ایڈورڈ ہشتم کی طرح ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون سے شادی کی ہے اور ڈیوک آف ونڈسر کی طرح برطانوی ساحلوں سے بہت دور رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ 

پرنس اینڈریو اور پرنس ہیری دونوں تنازعات میں خدمات انجام دینے والے بہادر افسران کے طور پر کمائے گئے تمغے پہننے کے حقدار ہیں۔ تاہم محل کی انتظامیہ نے انہیں فوجی وردی پہننے کا حق نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

شہزادہ چارلس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا کے ساتھ ان کا تعلق ایک عالمی سطح پر دیکھا گیا سوپ اوپرا ہے، جو ایک بار پھر نئی فلم ’سپینسر‘ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اکیلے ہی جدیدیت پسند برطانوی فن تعمیر کو تباہ کر دیا۔

انہیں دیہاتی زندگی اور سر ڈیوڈ ایٹنبرا کے بات چیت پسند ہے، مگر نجی طیاروں اور پیٹرول کاروں پر ان کے زیادہ عوام کا پیسہ کسی نے خرچ نہیں کیا ہے۔

اگر انہیں صحیح سے تیار نہ کیا جائے تو وہ عوامی تقریبات یا ٹی وی شوز میں تھکے ہوئے لگتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ بھی مسائل ہیں۔ اپنی یادداشت ’ایک سچی کہانی پر مبنی: ایک مصنف کی زندگی‘ میں صحافی انتھونی ہولڈن، جنہوں نے چارلس کی دو مکمل سوانح حیات لکھی ہیں اور انہیں اپنی کتاب ’دا ٹارنشڈ کراؤن‘ میں اپ ڈیٹ کیا ہے، اس چوری کے بارے میں غیرمعمولی باتیں لکھتے ہیں جس میں ان کے مطابق چارلس سے متعلق ان ’تمام فائلیں، فلاپی ڈسک، وی ایچ ایس ٹیپس اور دیگر چیزیں جن پر ان کا نام تھا‘ چوری ہوئیں۔ 

 

وہ لکھتے ہیں: ’چوری میں اور کچھ نہیں چھوا گیا، قیمتی سامان اپنی جگہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ جب پولیس پہنچی تو انہوں نے اعلان کیا کہ ’یہ ان کی لیگ سے باہر ہے‘۔ دوسرے لفظوں میں، یہ انہیں انٹیلی جنس کارندوں کے ماہرانہ کام کی طرح لگا۔ ‘

میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس سے یہی سمجھا ہے کہ چارلس کی بالغ زندگی خود پسندی میں گزری ہے، اس کے برعکس ان کی ماں کی مسلسل مثالی عوامی خدمت میں۔

 یہ غیر منصفانہ ہو سکتا ہے، لیکن کیا ہمیں ایک اور بادشاہ کی ضرورت ہے جو 80 کی دہائی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک بیوی، جسے طلاق ہو چکی، اور جسے باضابطہ طور پر چرچ آف انگلینڈ کے قواعد کے تحت ملکہ کا تاج نہیں پہنایا جا سکتا؟ درحقیقت، یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ایک طلاق یافتہ بادشاہ انگلیکن چرچ کا سربراہ بھی ہوسکتا ہے۔ 

بہت سارے پروفیسر اور درباری جوابات تلاش کرنے میں جٹے ہوں گے۔ جنگ کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کی نسل تیزی سے ختم ہونے کے ساتھ ہی قوم ایک نئے آغاز کی تلاش میں ہے۔

ابھرتی ہوئی نسلوں کو بریگزٹ سے نبرد آزما ہونا ہوگا اور اکیسویں صدی کے باقی دنوں میں دنیا میں ایک نئی جگہ اور کردار تلاش کرنا ہوگا۔

بہت سے لوگ چارلس کی اپنے بیٹے ولیم کے حق میں قربانی کا خیر مقدم کریں گے، جن کی شادی مثالی ہے اور ایک ایسی بیوی کے ساتھ ہیں جن سے ہر کوئی خود کو جڑا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ لوگ چاہیں گے کہ یہ ہمارا اکیسویں صدی کا شاہی خاندان ہو۔

 دوسرے لوگ مزید آگے بڑھ کر کہہ سکتے ہیں کہ غیر جدید اور مرکزی تخفیف شدہ ملک، جس میں طاقت محض لندن کے ان اشرفیہ کے ہاتھوں میں ہو جو مستقل شاہی خاندان کے آگے گٹنے ٹیکے ہوں، کو ایک مکمل آئینی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں ایک مختلف نقطہ نظر ہو کہ کون سربراہ مملکت ہے۔


مصنف ڈینس مکشین 18 سال تک لیبر پارٹی کے رکن پارلیمان اور فارن اور دولت مشترکہ کے وزیر رہے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ