’پہلے جو مجھے ہیجڑا بلاتے تھے وہی آج استاد بلاتے ہیں‘

حالیہ دنوں وینکوور میں ہونے والی ویمن ڈیلیور کانفرنس میں فلم ساز علی رضوی کی ڈاکیومنٹری ’گھنگرو‘ پیش کی گئی جو ایک مرد کتھک ڈانسر داؤد بھٹی کی کہانی ہے۔

’پہلے جو مجھے ہیجڑا بلاتے تھے وہی آج استاد بلاتے ہیں۔‘

یہ الفاظ تھے پاکستانی فلم ساز علی رضوی کی ڈاکیومنٹری ’گھنگرو‘ کے مرکزی کردار داؤد بھٹی کے جو مردانگی اور اس معاشرے کی منافقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ 

’گھنگرو‘ علی کی ان دو فلموں میں سے ایک ہیں جس کی رونمائی گذشتہ دنوں وینکوور میں ویمن ڈیلیور کانفرنس میں ہوئی جہاں پر مختلف فلموں نے ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر خاموشی توڑنے کی کوشش کی۔ مثلاً ماہواری، مردانگی اور اس کے مسائل، خواتین کو زندگی میں پیش آنے والی رکاوٹیں اور ایسے کئی موضوعات۔

علی کی فلم ایک کتھک ڈانسر کے بارے میں ہے جس کا مذاق اس کے محلے والے اڑاتے ہیں لیکن جب وہ اپنے فن کے ذریعے شہرت کی جانب گامزن ہوا تو وہی لوگ اپنے بچے اس کے پاس بھیجنے لگے۔ فلم میں ایک ایسا کردار بھی ہے جو اپنا چہرا ماسک کے ذریعے چھپا کر ڈانس کی تیاری کرتا ہے تاکہ اس کے خاندان والوں کو پتہ نہ چل سکے کہ وہ ڈانس کی تربیت حاصل کر رہا ہے ورنہ اس کی بدنامی اور سرزنش ہو گی۔

فیسٹیول میں فلم دیکھنے آئی لیزا نے اس کے بارے میں کہا: ’مجھے فلم کی ایک خاصیت لگی کہ جہاں وہ معاشرے کی عکاسی کرتی ہے ساتھ ہی میں اس میں کرداروں پر توجہ دی گئی ہے۔ بہت کم فلم ساز یہ کر پاتے ہیں کہ ان کے کرداروں سے انسان کو حوصلہ حاصل ہو۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان کی نمائندگی اس فیسٹیول میں ممکن ہوئی اور مجھے بہت خوشی ہے کہ علی یہاں شرکت کے لیے آسکے۔‘

ناظرین میں سے ایک خاتون ملیسا نے کہا کہ ’مجھے یہ فلم اس لیے پسند آئی کیونکہ اس میں مردانگی کا ایک نیا تصور پیش کیا گیا ہے۔ میں اس نوجوان سے کافی متاثر ہوئی ہوں جو اپنا چہرا چھپا کر ڈانس کی تربیت لے رہا ہے۔ میں میکسیکو سے تعلق رکھتی ہوں وہاں بھی مردانگی کو محض ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کاش کے لڑکوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں کوئی عار نہ ہو۔‘

ایک اور خاتون کرسٹینا کے مطابق ان کو اس فلم سے امید ملی کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی مرد ہیں جو معاشرے کی منافقت اور صنفی تقسیم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی رکمنی کا یہ ماننا تھا کہ جو مرد کلاسیکی رقص کا حصہ بنتے ہیں ان کو تضحیک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس فلم میں ایک مثبت پیغام دیا گیا ہے جو انہیں کافی پسند آیا۔

اپنی فلم کے بارے میں علی نے بتایا کہ کتھک ڈانس کرنے والوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے کیوں کہ اس میں نسوانیت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے لیکن داؤد اپنے ڈانس کے ذریعے اس تاثر کو للکار رہے ہیں۔

علی کہتے ہیں: ’مجھے دونوں فلموں کا بہت اچھا ریسپانس ملا ہے اور لوگوں نے داد دی خصوصاً کہانی بتانے کے انداز کو بہت سراہا گیا۔ اپنی فلموں کی وجہ سے مجھے ایک پینل کا حصہ بھی بنایا گیا ہے جہاں میں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ تخلیقی لوگوں کو پالیسیاں بنانے کے عمل میں شامل کرنا چاہیے کیوں کہ فن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی ممکن ہے۔‘

گذشتہ سال علی کی فلم ’گھنگرو‘ کی رونمائی کراچی کے کیپری سنیما میں بھی ہوئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل