قومی سلامتی پالیسی کا دھمال

قومی سلامتی پالیسی میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی پر بجا طور پر توجہ دلائی گئی ہے مگر اس سلسلے میں عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان  14 جنوری کو اسلام آباد میں ایک تقریب میں نئی قومی سلامتی پالیسی پر دستخط کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے ان کے مشیر معید یوسف بھی کھڑے ہیں (تصویر: معید یوسف ٹوئٹر   اکاونٹ) 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


قومی سلامتی کے مشیر کی نئی قومی سلامتی کی دستاویز پر دھمال بےمحل سا دکھائی دیتا ہے۔

اس دھمال سے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ہم پہلے اپنی اندرونی و بیرونی اور معاشی پالیسیاں بغیر کسی سوچ سمجھ کے بنا رہے تھے اور یہ کہ یہ پالیسیاں عوام یا شہریوں کی بہبود پر مرکوز نہیں تھیں۔ اور اب نئی پالیسی ان سب مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے قومی خوشحالی اور دفاع کا ایک نیا کامیاب راستہ متعین کر دے گی۔

عموماً ناکامی کی طرف گامزن حکومت، پستی کی طرف جاتی ہوئی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس قسم کے اقدامات کا اہتمام کرتی ہے۔ یہی کام بظاہر موجودہ حکومت سرانجام دے رہی ہے۔ تمام معاشی میدانوں میں ناکامی، بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے میں پسپائی اور عوام کا مذاق اڑاتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دینا، موثر غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں ناکامی، سی پیک منصوبوں میں سست رفتاری، گورننس کے معاملات میں شدید نااہلی اور آئی ایم ایف کے قدموں پر گر جانے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بظاہر اس پالیسی کا اہتمام کیا گیا ہے۔

اس لیے ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے یہ پالیسی کچھ طاقتور ممالک بشمول ہمسایہ بھارت کو رام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ تاثر کھل کر سامنے آیا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانا، اسے ہمسایہ وسطی ایشیا کے ممالک کے لیے راہداری مہیا کرنا اور کشمیر کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنا ہے۔

مسئلہ کشمیر کا اس قومی سلامتی کی دستاویز میں بہت مختصر ذکر ہے۔ جس  مسئلے کو ہم ماضی میں پاکستان کی شہ رگ گردانتے نہیں تھکتے تھے اور وزیراعظم اس بارے میں اپنی اقوام متحدہ میں تقریر کا ہر وقت ذکر کرتے رہے ہیں، اسے ایک بھارتی تبصرہ نگار کے مطابق اس ضخیم دستاویز میں صرف 113 الفاظ مل سکے۔

اس دستاویز میں کہیں یہ ذکر نہیں دکھائی دیتا کہ اگست 2019 میں کشمیر کے تشخص کو ختم کرنے کی جو بھارتی کوشش شروع کی گئی، اسے واپس کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان اقدامات کا ذکر نہ شائع کیے جانے والے صفحات میں ہو۔ اگر ایسا ہے تو انہیں ظاہر نہ کرنے میں کیا محرکات شامل ہیں۔

اس اہم دستاویز سے کشمیری عوام کو واضح طور پر پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان ان کی جاری حق خود ارادیت کی جدوجہد میں مزید مدد کرنے سے لاچار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دستاویز میں یہ پیغام بھی صاف چھپا نظر آتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے عوام پاکستان کی طرف دیکھنا بند کر دیں اور پاکستان اور بھارت کے معاشی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے وہ بھی اب بھارت ہی میں اپنا مستقبل تلاش کریں۔

ماضی میں جب جمہوری حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی بات کرتی تھیں تو انہیں یا تو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا تھا یا انہیں بھارت یا مودی کا یار بنا کر بدنام کیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت نے اب کیا ایسے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے ہم اس بڑی تبدیلی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دستاویز کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ اس میں بظاہر وزارت خارجہ سے کوئی رائے نہیں لی گئی یا اس کے مشورے کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اگر وزارت خارجہ کا مشورہ اس میں شامل ہوتا تو اس طرح ہمارے اہم بین الاقوامی مسائل کو نظرانداز نہ کیا جاتا۔

گو دیر سے مگر بروقت اس دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مفاد اس کی معاشی ترقی میں ہے۔ اس اہم نقطہ پر پچھلی جمہوری حکومتیں تسلسل سے زور دیتی رہیں اور اسی وجہ سے یا تو وہ ڈان لیکس کا نشانہ بنیں یا انہیں دھرنوں اور دوسرے طریقوں سے غیر مستحکم کر کے معاشی ترقی کا راستہ روکا گیا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔

اس دستاویز میں ناپختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمپ پالیٹکس کا ذکر کیا گیا ہے اور عہد کیا گیا ہے کہ پاکستان اس قسم کی بین الاقوامی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا۔ ایسا لگتا کے اس نکتے کا محور ہمارے امریکہ کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات ہیں اور اسے یقین دہانی کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان چین کے دائرہ اثر میں شامل نہیں ہے اور اگر امریکہ اپنا رویہ تبدیل کرے یا صدر جو بائیڈن ایک فون کال کر دیں تو ہمارے پرانے قریبی تعلقات مناسب شرائط اور توجہ دینے پر بحال ہو سکتے ہیں۔

یقیناً چینی فیصلہ ساز اس اشارے کو تشویش سے سمجھنے کی کوشش کریں گے اور یہ ہمارے دوست ملک کے ساتھ تعلقات پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ اشارہ ہماری چین، جو ہمارا بااعتماد ساتھی ہے، کے بارے میں پاکستانی حکومت میں گومگو کی کیفیت کا بظاہر آئینہ دار ہے۔ ہمارے واحد بااعتماد دوست سے یہ رویہ ہماری قومی سلامتی کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔

اس دستاویز میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی پر بجا طور پر توجہ دلائی گئی ہے مگر اس سلسلے میں عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں بھی انتہا پسندی کا راستہ روکنے کے لیے مناسب تجاویز دی گئی ہیں مگر اس بات کی کہیں یقین دہانی نظر نہیں آئی کہ پچھلے ادوار میں جو قوتیں اس انتہا پسندی کو فروغ دیتی رہی ہیں کیا ان کی دکانیں ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور انہیں قانون کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اس دستاویز سے کسی خاص قسم کے قومی فوائد کی توقع نہیں کیونکہ یہ ہمارے بین الاقوامی مفادات، تعلقات اور اصولوں پر مبنی موقف کو بظاہر نظر انداز کر رہی ہے۔ اس میں یہ بھی نہیں معلوم کے طے کرنے والے کون تھے اور کن سے مشاورت کی بنیاد پر اسے حتمی شکل دی گئی۔ 

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ