صوابی: توہین رسالت کے الزام میں مشتعل ہجوم کا دفتر پر حملہ

ایس ایچ او کا کہنا تھا: ‘پتہ لگ گیا کہ یہ سیاسی رقابت تھی۔ افسر پر محض الزام لگایا گیا تھا۔ علما نے ہجوم کو بتایا کہ ابھی دین کے رکھوالے موجود ہیں لہذا انہیں یہ فیصلہ ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔’

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کی تحصیل رزڑ میں پولیس کے مطابق بدھ کو ایک بڑے مشتعل ہجوم نے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) آفس میں ایک افسر پر توہین رسالت کا الزام لگا کر ان کو مارنے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی۔

پولیس نے بتایا تقریباً پانچ سو کے قریب مشتعل ہجوم ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے اور تحصیل ریونیو افسر(ٹی او آر) پر توہین رسالت کا الزام لگاتے ہوئے ان کی تلاش میں دفتر کے اندر گھس گئے۔

تاہم پولیس نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ جبکہ بعد ازاں صوابی کے مختلف علاقوں سے علما نے آ کر پولیس کے سینیئر اہلکاروں کے ساتھ مل کر معاملے کو سلجھاتے ہوئے مشتعل ہجوم کو واپس لوٹنے کی درخواست کی۔

تفصیلات کے مطابق ٹی ایم اے کے اس دفتر میں عارضی طور پر ڈی ایس پی کا دفتر بھی قائم کیا گیا ہے، جن کی حفاظت کے لیے پولیس کا عملہ اس دفتر میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ  تفصیلات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی انہیں ہجوم کی اطلاع ملی انہوں نے ریونیو افسر کو محفوظ مقام پر منتقل کیا، تاہم اس دوران ٹی ایم اے کا ایک اور خوفزدہ اہلکار بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں لگ گیا۔

انہوں نے بتایا: ’لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہی وہ افسر ہے جس کو وہ ڈھونڈ رہے تھے۔ لہذا نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے اسے بری طرح سے زدوکوب کرنا شروع کیا۔ پولیس عملے نے انہیں بچانے کی کوشش میں خود بھی مکے، تھپڑ اور لاتیں کھائیں۔ ایک تھانیدار کی انگلی بھی ٹوٹ گئی، لیکن لڑکے کو بچا لیا گیا۔‘

متعلقہ اہلکار نے کہ آج ایک بے گناہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو جاتا۔ ’پولیس نے چیخ چیخ کر لوگوں کی منتیں کیں اور بتایا کہ جس شخص کو وہ ڈھونڈ رہے ہیں وہ یہ نہیں ہے۔ بعد ازاں بچنے والے شخص نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر پولیس نہ ہوتی تو وہ بے گناہ قتل ہو جاتا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یوں لگ رہا تھا کہ یہ ایک منظم منصوبہ تھا جس میں شریک ہونے والے لوگوں کو پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔

’پولیس والوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ لیکن یہ چہرے انجانے تھے۔ یہ ایک منظم منصوبہ اس لیے تھا کہ ان کے ہاتھوں میں لاؤڈ سپیکر تھا اور وہ کچھ دیر کے لیے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر شیوہ اڈہ کے بازار میں بھی رک کر وہاں اعلانات کرتے رہے۔‘

تھانہ کالو خان کے سٹیشن ہاؤس آفیسر عجب درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے معاملے کی ابتدائی تفتیش کر لی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ تحصیل ریونیو افسر جس بازار سے جرمانے اور کرائے وصول کر رہا تھا، اس بازار کے تاجران کے سابقہ صدر نے سیاسی بنیادوں پر افسر کو نشانہ بناتے ہوئے اس کے خلاف عوام کو بھڑکایا۔

ایس ایچ او کا مزید کہنا تھا: ’پتہ لگ گیا کہ یہ سیاسی رقابت تھی۔ افسر پر محض الزام لگایا گیا تھا۔ علما نے ہجوم کو بتایا کہ ابھی دین کے رکھوالے موجود ہیں، لہٰذا انہیں یہ فیصلہ ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عجب درانی کے مطابق، متعلقہ افسر کو پولیس کے سینیئر افسران نے علما کے سامنے بھی پیش کیا، جنہوں نے کلمہ پڑھتے ہوئے اس الزام کی تردید کی۔

انہوں نے کہا: ’افسر نے علما کو بتایا کہ ان کے ملازمت کی وجہ سے ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اڈوں اور سڑکوں پر ڈسپلن قائم کرنے کے لیے سخت رویہ قائم رکھیں اور لوگوں سے نہ صرف کرائے وصول کریں بلکہ ان پر جرمانے بھی عائد کریں، جس کے انتقام میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔‘

متعلقہ افسر کے حوالے سے ان کے دفتر کے ساتھیوں نے کہا کہ وہ ایک محنتی اور ایماندار افسر ہیں اور جن کو انہوں نے ہمیشہ ایک پرہیزگار اور دین پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ توہین رسالت کے الزام میں آج مشتعل ہجوم سے بچنے والے افسر نے کئی عمرے بھی ادا کیے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان