نو خواتین کا سیریئل کِلر جو پکڑا نہ جا سکا

امریکہ میں قتل کے کئی ایسے واقعات پیش آئے جو ماضی کی گرد میں دفن ہو گئے۔ قتل کی ایک ایسی ہی لرزہ خیز وارادت کی کہانی جس کے مجرم کا کبھی سراغ نہ مل سکا۔

اس سیریئل  کلر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے کم از کم 11 عورتوں کو قتل کیا، جن میں سے نو کی لاشیں میساچوسٹس شہر کے اردگرد 1988/89 کے دوران ملیں (برینڈائس یونیورسٹی پریس)

جب خواتین پہلی بار غائب ہونا شروع ہوئیں تو کسی نے کڑیاں آپس میں نہیں جوڑیں۔

یہ امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر نیو بیڈ فورڈ میں 1988 کی بات ہے جب ایک مصروف بندرگاہ پر پہلے ہی بڑی تعداد میں موجود محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد بڑھنے لگی، جنہوں نے وہاں گھر خرید کر رہنا شروع کر دیا تھا۔ نیو انگلینڈ کا یہ چھوٹا سا شہر منشیات کی لپیٹ میں آ گیا جو کسی بندرگاہ کے لیے بالخصوص 80 کی دہائی کے اعتبار سے انوکھی بات نہیں تھی۔

سو بہت کم عرصے میں پولیس کچھ مشترک خطوط تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ ایک کے بعد ایک نوجوان خاتون کی ملنے والی لاشوں میں سے بیشتر نشے کی عادی، طوائف پیشہ یا بیک وقت دونوں دھندوں میں ملوث تھیں۔

بہرحال یہ معلوم ہوتے ہی بات واضح ہو چکی تھی کہ نیو بیڈ فورڈ ایک سیریئل کلر کے نشانے پر ہے جو کمزوروں کو گھیرتا، ممکنہ طور پر پولیس کا شناختی بیج استعمال کرتا اور لاشیں ہائے وے یا شاہراہوں کے کنارے ٹھکانے لگانے کا عادی ہے۔ کم از کم 11 خواتین کو قتل کرنے کے بعد یہ قاتل کہیں غائب ہو گیا۔

ایک نوجوان صحافی کے طور پر اس مقدمے کو کور کرنے والی پروفیسر مصنفہ موین بوئل دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’کچھ نظریات کے مطابق وہ جیل میں ہے یا مر چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب قتل نہیں کر رہا، یا وہ اس جگہ سے کہیں اور چلا گیا ہے اور وہاں قتل کر رہا ہے۔‘

وہ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جوابات کی کمی ’سب کے لیے مایوس کن ترین چیز‘ اور ایک خوابیدہ خوف کا باعث ہے۔

حل نہ ہونے والے قتل کے ان مقدمات پر 2017 میں شیلو گریوز: دا ہنٹ فار دا نیو بیڈفورڈ ہائی وے سیریئل کلر نامی کتاب لکھنے والی بوئل کہتی ہیں کہ قتل کے ان واقعات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اور مشتبہ فہرست کی تعداد ’خوفناک‘ ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’آپ کو ایک لمحہ رک کر سوچنا اور احساس کرنا ہو گا کہ میرے خدا! وہاں کتنے ہی لوگ تھے جو ممکنہ قاتل ہو سکتے تھے۔ یہ بات دل دہلا دینے والی ہے۔‘

نشانہ بننے والی پہلی معلوم خاتون ڈیبرا میڈیروس کی ناقابل شناخت باقیات جولائی 1988 میں میساچوسٹس کے شہر فری ٹاؤن میں نارتھ باونڈ روٹ 140 کے قریب سے گزرنے والے ایک موٹر سائیکل سوار نے دیکھیں۔ چند ہفتوں کے اندر اندر ایک اور خاتون کی لاش ملی۔ یہ دو بچوں کی ماں نینسی لی پائیوا تھیں جن کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ان کے بوائے فرینڈ نے دے رکھی تھی۔ ان کا سراغ کئی ماہ بعد اس وقت ملا جب ان کی لاش I-195 ہائی وے کے پاس سے ملی۔

اس دوران مزید متاثرین لاپتہ یا مردہ پائے جانے لگے۔ ان میں 26 سالہ ماں میری روز سینٹوس، سینڈرا بوٹیلو جو 11 اگست 1988 کو گھر سے نکلیں اور بعد میں کوئی سراغ نہ ملا، 25 سالہ ڈان مینڈس جو چار ستمبر کو لاپتہ ہو گئیں۔ کیپ کاڈ قصبے کی رہائشی 28 سالہ خاتون روشیل ڈوپیریلا، 25 سالہ ڈیبرو لِن میک کونل، نیو بیڈ فورڈ کی رہائشی نوعمر کرسٹینا مونٹیئرو شامل تھیں۔ 35 سالہ ڈیبرا گرینیا ایک ورک ریلیز پروگرام سے واپس آ رہی تھیں کہ مردہ حالت میں پائی گئیں، رابن روڈز کی لاش مارچ 1989 کو ملی۔

19 سالہ مسز مونٹیئرو اور 34 سالہ میریلن رابرٹس کی لاشیں کبھی نہیں ملیں، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسی قاتل کا نشانہ بنیں۔ مقتولین نے اپنے پیچھے کل ملا کر 15 بچے چھوڑے۔

نیو بیڈ فورڈ کی زیادہ تر آبادی پرتگال سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد اور ان کی اولاد پر مشتمل ہے جن میں سے بیشتر ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں، آج بھی اس علاقے میں پرتگالی زبان کا ایک ریڈیو سٹیشن موجود ہے۔ ان میں سے بہت سی خواتین آپس میں گہری جڑت رکھنے والی اسی برادری سے تھیں جو نہ صرف گمشدگیوں اور قتل کے واقعات بلکہ منشیات کے مسائل سے بھی خوفزدہ تھی اور امید رکھتی تھی کہ ایک دن یہ حل ہو جائیں گے۔

مسز بوئل دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’یہ محض خواتین نہیں تھیں جو مردہ حالت میں پائی گئیں۔ یہ ایسی خواتین تھیں جن کے گھر والے تھے، جنہیں یاد کرنے والے موجود تھے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں ’یہ دھتکارے ہوئے لوگ نہیں تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن سے پیار کیا گیا تھا اور منشیات سے پہلے ان کا ایک ماضی بھی تھا، ان سے وہ مستقبل چھین لیا گیا جو منشیات کے بعد ان کا ہو سکتا تھا لیکن کسی نے انہیں نشانہ بنا ڈالا کیوں کہ وہ کمزور تھے، آج بھی ان کے خاندان حیرت زدہ ہیں کہ یہ کس نے کیا؟ کیوں کہ ہر کسی کا الگ نظریہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اپنا نظریہ پیش کرنے والا پہلا شخص ایک مقامی پولیس افسر تھا جس نے خواتین کے پس منظر میں مماثلت دیکھی۔ نیو بیڈ فورڈ پولیس کے شعبہ جاسوسی سے وابستہ جان ڈیکسٹراڈر ممکنہ طور پر فوراً کسی مجرم کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ اس کا ذمہ دار کوئی سیریئل کلر ہے اور وہ پہلی لاش ملنے کے کئی ماہ بعد افسران بالا کو ٹاسک فورس قائم کرنے پر راضی کر سکے۔ جلد ہی تفتیشی عملے نے چند ممکنہ مشتبہ افراد کی نشان دہی کی۔

متعدد متاثرین کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایک مقامی وکیل کینتھ پونٹ مسلسل تفتیش کاروں کی دلچسپی کا موضوع رہے۔ پونٹ نے مسز سینٹوس کی نمائندگی کی تھی، مسز پائیوا کے ساتھ کام کیا تھا، مبینہ طور پر مسز روڈز کے ساتھ ڈیٹ پر جاتے رہے تھے اور ایک موقعے  پر مسز ڈوپیریلا کی میزبانی کی تھی، اس کے علاوہ مبینہ طور پر مسز مینڈس ان کے گھر بھی دیکھی گئی تھیں۔

 قانون کی تعلیم حاصل کرنے، وکالت کا امتحان پاس کرنے اور یہاں تک کہ پولیس کا شناختی بیج اور پستول سمیت ڈپٹی شیرف کا عہدہ حاصل کرنے سے پہلے پونٹ خود ہیروئن کے عادی تھے۔

مسز بوئل نے اپنی کتاب ’شیلو گریوز‘ (Shallow Graves) میں لکھا کہ ’راہ چلتی لڑکیوں کو شدید خوف محسوس ہوتا تھا اور انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کیسے پونٹ انہیں اپنے گھر لے جائے گا، دروازے بند کر لے گا اور انہیں بھاگنے نہیں دے گا۔ وہ دیکھنے میں ظالم نہیں محض عجیب لگتا تھا۔ لیکن یہ چیز لڑکیوں کو اس کے قریب جانے سے نہیں روک سکی اور کسی بھی لڑکی نے اس پر کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ آخرکار اس نے انہیں کوک پلائی تھی اور جنسی عمل میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔‘

اولین لاش ملنے کے چند ماہ بعد پونٹ کا فلوریڈا منتقل ہونے کا فیصلہ بھی شکوک و شبہات کا باعث بنا۔ وہاں انہوں نے بہت زور دے کر اپنی بے گناہی پر اصرار کیا لیکن اس کا کچھ فائدہ نہ ہوا اور اس پر مسز ڈوپیریلا کے قتل کا اکہرا الزام عائد کر دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا جسے بالآخر خارج کر دیا گیا۔

 مسز بوئل لکھتی ہیں: ’اتنے کافی شواہد نہیں تھے کہ انہیں مجرم ثابت کیا جاتا۔ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، کسی بھی قتل کا کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا، کسی قتل میں کینی کو براہ راست ملوث کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔‘

وکیل کینتھ پونٹ کو 2010 میں 60 سال کی عمر میں موت نے آ لیا اور یہ تمام سوالات بغیر کسی جواب کے جوں کے توں رہ گئے۔

اس کے علاوہ مشتبہ افراد کی فہرست میں نیو بیڈ فورڈ کے رہائشی ایک اور شخص ٹونی ڈی گریزیا بھی شامل تھے جو اپنی چپٹی ناک کی وجہ سے بآسانی پہچان لیے جاتے تھے اور راہ چلتی لڑکیاں ان کے غضب سے خوف زدہ ہو جاتی تھیں۔

مسز بوئل لکھتی ہیں: ’راہ چلتی لڑکیاں محض اتنا جانتی تھیں کہ وہ شخص جو باکسر کی طرح نظر آتا ہے اس سے دور رہنا ہے۔‘

ڈی گریزیا کا 1989 میں انٹرویو کیا گیا تھا جس میں اس نے کسی بھی شخص کے قتل سے انکار کیا تھا اگرچہ وہ جھوٹ پکڑنے والے طے شدہ ٹیسٹ (پولی گراف) کے لیے نہیں آئے۔

تاہم خصوصی گرینڈ جیوری کے سامنے پیش ہونے والی ایک اور طوائف مارگریٹ میڈیروس کی گواہی میں کافی جان تھی کہ ٹونی نامی ایک شخص نے ’اچانک میرا گلہ دبایا‘ اور ’گردن مروڑنے کی کوشش کی اور مجھے کہا کہ وہ میرے ساتھ وہی کچھ کرے گا جو اس نے دوسری اوباش عورتوں سے کیا۔‘

مئی 1989 میں ڈی گریزیا کو ریپ کے جرم میں چار بار، حملے اور زدوکوب کرنے کے ذیل میں چھ بار، اور ریپ کے ارادے سے حملے پر ایک بار سزا سنائی اور طوائفوں پر جن حملوں کے نیچے میں سزا سنائی گئی تھی یہ اس دورانیے کے تھے جب متاثرین کو ہلاک کیا گیا تھا۔

ڈی گریزیا نے 1991 میں خودکشی کر لی اور ان سوالات کے جوابات اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ لیکن وہ اور پونٹ مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل ممکنہ قاتل ہونے سے کوسوں دور تھے۔

مسز بوئل دی انڈپینڈنٹ کو بتاتی ہیں: ’بہت سے اور لوگ تھے جو سامنے آئے، اور آج جب آپ پلٹ کر دیکھتے ہیں تو جو چیز زیادہ خوفناک معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ ممکنہ طور پر شک کی زد میں تھے، وہاں کتے لوگ ہیں جو قاتل ہو سکتے تھے۔‘

تفتیش کاروں کو ٹیکنالوجی اور فرانزک شواہد کی سہولیات کی کمی کا سامنا تھا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ابھی تک ابتدائی مراحل میں تھا، سیل فون سرے سے تھے ہی نہیں اور یہاں تک کہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی بہت ہی محدود پیمانے پر تھی۔

اگرچہ نیو بیڈ فورڈ میں ہر شخص ابھی تک جوابات کا منتظر ہے لیکن یہ مقدمہ ٹھنڈا ہو گیا۔ حیران کن طور پر متاثرین کی تعداد کبھی اتنی توجہ حاصل نہ کر سکی جتنی زوڈیئک کلر (Zodiac Killer) کے نام سے مشہور ہونے والے ایک اور سلسلہ وار قاتل یا لانگ آئی لینڈ سیریئل کلر جیسے قاتلوں نے حاصل کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں سیریئل کلرز کے متاثرین نیو بیڈ فورڈ میں آخری لاش دریافت ہونے کے چند سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ یہ بھی خواتین ہی تھیں جنہیں میساچوسٹس میں پیش آنے والے واقعات کے مقام سے جنوب کی سمت محض چار گھنٹے کی مسافت پر مرکزی شاہراہوں کے قریب ساحل سمندر پر ٹھکانے لگایا گیا تھا۔

 مسز بوئل کا خیال ہے کہ کچھ وجوہات تھیں جن کے سبب نیو بیڈ فورڈ کے واقعات عوامی توجہ نہیں سمیٹ سکے۔

سٹون ہل کالج میں کمیونیکیشن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر مسز بوئل کہتی ہیں: ’اس کی وجہ ٹیکنالوجی کی کمی تھی اور یہ واقعات کسی بڑا شہر میں بھی پیش نہیں آئے تھے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں: ’کیوں کہ یہ انٹرنیٹ سے پہلے کی بات ہے، تب سوشل میڈیا نہیں تھا، اس لیے یہ معاملہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سو جب تک آپ اسے مقامی اخبار میں دوبارہ نہیں پڑھتے یا اسے ٹیلی ویژن پر نہیں دیکھ لیتے، آپ اس مقدمے کے بارے میں بالکل لاعلم رہیں گے۔‘

نیو بیڈ فورڈ میں ایک کولڈ کیس یونٹ ہے جس نے ہار مانی ہے نہ متاثرین کے رشتہ داروں نے (کولڈ کیس یونٹ داخل دفتر قسم کے نہ حل ہونے والے کیسوں کا سراغ لگاتا ہے)۔

ایک متاثرہ خاتون نینسی پیوا کی بہن جوڈی سینٹوس نے گذشتہ برس سی بی ایس کے مقامی نمائندے کو بتایا کہ جب بھی وہ شاہراہ پر گاڑی چلاتے ہوئے اس مقام سے گزرتی ہیں جہاں نینسی کی لاش دبائی گئی تھی وہ اپنی بہن کے بارے میں سوچتی ہیں۔

مسز ڈی سینٹوس کے مطابق: ’جب بھی میں وہاں سے گزرتی ہوں ہمیشہ میری آنکھیں اسے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ کسی نے اسے محض ردی سمجھا جو اتنی آسانی سے ٹھکانے لگائی جا سکتی ہے۔ یہ سوچ کر میں غصے سے کھولنے لگتی ہوں۔‘

حالیہ برسوں میں مسز بوئل کی کتاب نے ایک بار پھر قتل کے ان واقعات میں دلچسپی پیدا کی ہے۔

مسز بوئل کہتی ہیں: ’کتاب لکھنے کی ایک یہی وجہ تھی کہ کیس پر دوبارہ توجہ مرکوز ہو اور جو واقعی پیش آیا اسے دستاویزی شکل میں محفوظ کر لیا جائے کیونکہ میں دیکھ رہی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ چیزیں بھول رہے تھے۔‘

مسز بوئل کہتی ہیں کہ مقامی لوگ ’بچوں کی ٹیلی فون گیم میں ایسے واقعات دہرا رہے تھے، زبانی بیان ہوتے ہوتے کسی بھی برادری میں واقعات کی شکل کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔‘

وہ کسی ایک شخص کا نام نہیں لیں گی جو ان کے خیال میں اصل قاتل ہو سکتا ہے، ان کے نزدیک یہ غیر ذمہ دارانہ بات ہے کیونکہ ’کئی برس میں کئی نظریات نے جنم لیا۔‘

 وہ کہتی ہیں ’لیکن ہر برادری میں، ہر ریاست میں قتل کے کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا کبھی سراغ نہیں ملتا، جس کا مطلب ہے کچھ ایسے قاتل ہیں جو قتل کے بعد بچ نکلتے ہیں، قاتل جو ہمارے درمیان رہ رہے ہیں۔ متاثرین میں بچے، نوجوان اور عمر رسیدہ خواتین، نوجوان اور عمر رسیدہ مرد شامل ہیں، یہ صورتحال واقعی بہت خوفناک ہے۔‘

’اور ایک پولیس رپورٹر کے طور پر میں اس ساری صورت حال کا سامنا کروں گی جہاں نہایت برے لوگ موجود ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ