ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: جنہوں نے 1973 کے  آئین پر دستخط نہ  کیے 

سابقہ ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر ڈاکٹر حئی بلوچ پنجاب کے علاقے بہاولپور میں جمعہ کے روز ہونے والےایک ٹریفک حادثے میں گزر گئے۔ 

سابقہ ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک منظر (کریڈٹ چنگیز بلوچ فیس بک پیج) 

 بلوچستان کی سیاست میں جب کبھی کسی سردار یا نواب کا نام لیا جاتا ہے، تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا زکر بھی ضرور آتا ہے، جو یہاں کے بزرگ سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔ 

سابقہ ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پنجاب کے علاقے بہاولپور میں جمعہ کے روز ہونے والےایک ٹریفک حادثے میں گزر گئے۔ 

بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے بھاگ میں چھلگری قبیلے میں پیدا ہونے والے عبدالحئی بلوچ کو آخری عمر تک لوگوں نے پیدل گھومتے دیکھا اور ان کی خاصیت یہ تھی کہ وہ سب سے گھل مل جاتے تھے۔

بلوچستان کے ایک دوسرے سینیئر سیاسی رہنما عبدالرحیم ظفر، جنہوں نے مختلف کتابیں بھی تصنیف کی ہیں، نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالحئی کےساتھ ہماری کچھ یادیں شیریں اور کچھ تلخ گزری ہیں۔ 

عبدالرحیم ظفر نے اس بات کی تائید کی کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے 1973 کے آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔  

 انہوں نے بتایا: ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ایک مخلص سیاسی کارکن رہے ہیں۔ بہت محنتی اور جفاکش اور دن رات ایک کرکے سرگرم رکن کی حیثیت سے سیاست کے دھارے میں رہنے کے قائل تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 60 کی دھائی میں جب وہ ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں زیر تعلیم تھے تو بی ایس او میں ان کے ساتھ طلبا کی سیاست میں سرگرم عمل رہے ہی اور ان میں انہیں ایک مخلص ساتھی ملا۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ جس زمانے میں عبدالحکیم بلوچ مرحوم بی ایس او کے صدر اور وہ سکریٹری جنرل تھے تو ڈاکٹر عبدالحئی مرحوم بی ایس او کے خزانچی کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ 

’اس وقت ہمارے بڑوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ بی ایس او کو ان عناصر سے پاک کرنا ہے جو قبائلی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تو ڈاکٹر مرحوم نے قبائلی قیادت کا ساتھ دیا تھا۔ 

 انہوں نے اپنے کلاس سے علیحدگی اختیار کی اور یہاں سے ہماری تلخ یادیں شروع ہوتی ہیں اور بی ایس او جیسی منظم فعال تنظیم اختلافات کا شکار ہوکر تقسیم درتقسیم کی طرف گامزن ہوگئی۔‘

رحیم ظفر کہتے ہیں کہ بعد میں قبائلی سیاست بھی ان کو راس نہیں آئی اور وہاں بھی تنہائی کا شکار ہوئےاور ان کی صفوں میں بھی جگہ نہ پاسکے، جو آخرعمر تک برقرار رہی۔ 

رحیم ظفر کے بقول: ’وہ بہت اچھے انسان تھےلیکن سیاست کے رموز سے نا بلد تھے۔ بی ایس او کی ابتدائی تشکیل میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ البتہ جب ان کو ایک سیکشن کا چیئرمین نامزد کیا گیا تو انہوں نے بڑی محنت کی تھی۔‘ 

  رحیم کہتے ہیں کہ اینٹی سردار گروپ کا سربراہ وہ تھے اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ  سرداروں کی حمایت میں تھے۔ ’یہ اور بات ہے کہ بعد میں ڈاکٹر عبدالحئی بھی اینٹی سردار بن گئے تھے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالحئ کو 1970 کے الیکشن میں نواب خیر بخش مری نے ایم این اے بنایا تھا۔ بعد میں  بی این ایم کے کارکنوں نے انہیں سینیٹر  بنایا اور پھر ان کارکنوں نے بھی ان کو تنہا چھوڑ دیا۔ 

’کچھ بھی ہو ڈاکٹر عبدالحئی کی خدمات بلوچستان کی سیاست میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ‘

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے قریب رہنے والے سینیئر سیاستدان ڈاکٹرحکیم لہڑی کہتے ہیں کہ وہ 1966 سے دوست تھے۔ وہ ہمیشہ مشکل صورتحال اور مسائل کا تذکرہ ان سے کرتے تھے۔ 

 ڈاکٹر حکیم لہڑی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب ہم سابق صدرایوب خان کے خلاف تحریک  چلارہے تھےتو کراچی میں منظور گچگی بھی تھے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ کو گرفتار کرلیا۔ 

’گرفتاری کے بعد انہیں بلوچستان کے مچھ جیل بھیجا گیا تو میں ان کے لیے سامان وغیرہ لے جاتا تھا۔ لیکن ہمیں ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔‘

 ڈاکٹر حکیم نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالحئی کی رحلت نے انہیں بڑا دکھی کیا ہے۔

  ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نیشنل عوامی پارٹی کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی بنے اور 1972 سے 1977 تک ممبر رہے اور بعد میں چھ سال سینیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 

ڈاکٹر حکیم نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالحئی ان سب سے زیادہ متحرک رہنے والے انسان تھے اور آخری عمر میں بھی لوگ انہیں شہر میں پیدل سفر کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور جذباتی بھی ہوجاتے۔ 

’وہ ایک بہترین مقرر تھے اور کئی گھنٹوں تک تقریر کرسکتے تھے، مگر لکھنے پڑھنے سے زیادہ دلچپسی نہیں رکھتے تھے۔‘ 

  بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے بعد نیشنل عوامی پارٹی، پھر آخری عمر میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی جو بعد میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ 

  یاد رہے کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا دور بلوچستان کے بڑے نامور سیاستدانوں کے حوالے سے گزرا ہے۔ جن میں سردار عطااللہ مینگل، میرغوث بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی اور نواب خیر بخش مری شامل ہیں۔ 

ڈاکٹرعطاللہ بزنجو جن کا ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ سے قریبی رشتہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا پرنہیں ہوگا۔ 

ڈاکٹر عطاللہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ متحرک اور لوگوں کے کام کرنےوالے سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی کسی کے ساتھ موٹرسائیکل اور پیدل چلنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہی ان کی خوبی تھی کہ ان سے ملاقات کے لیے کسی کو وقت لینا اور انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ 

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی وفات پر سابق وزیر ڈاکٹر مالک، وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے اپنی بیان میں کہا کہ مرحوم نے سیاست میں جمہوری رویوں کو فروغ، عوامی حقوق کی پاسداری اور سیاسی شعور اجاگر کیا۔ 

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان