ہمارے کھیل سے آبی حیات کو خطرات

پاکستان میں کئی کمپنیاں لوگوں کو سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ جیسے کھیلوں کی سہولت فراہم کر رہی ہیں لیکن کیا ان کمپنیوں کا کاروبار ماحول دوست سیاحت کے زمرے میں آتا ہے؟

سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ  جیسے منفرد کھیل  انسان کو فطرت سے براہ راست ملاتے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن حکومتیں اب تک ان حسین مناظر اور دلکش جگہوں کو پائیدار سیاحت کے لیے تیار کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

سیاحت کا آغاز اگرچہ گلگت بلتستان کی دلکش وادیوں سے کیا گیا لیکن یہ ماحول دوست سیاحت سے دور ہے۔ اب بھی ملک بھر میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جن سے سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاحت ماحول دوست ہونی چاہیے۔

ان موقعوں میں سے ایک ہے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں واقع جزیرے جہاں سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کے کھیل میں بہت دلچسپی لی جا رہی ہے اور اس کھیل کو فروغ مل رہا ہے۔

پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کروانے والی مختلف کمپنیوں کے مطابق پاکستان میں ایسے جزائر ہیں جہاں یہ کھیل کھیلے جا سکتے ہیں۔

ان میں ایک کافی مشہور جزیرہ چرنا کے نام سے ہے جو سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ہے۔ دوسرا ہے کائیو جزیرہ جو بلوچستان کے علاقے گڈانی میں ہے اور کراچی سے محض 220 کلومیٹر کے فاصلے پر۔

تیسرا ہے استولا جزیرہ جو بلوچستان کے علاقے پسنی میں واقع ہے اور اس کو جزیرہ ہفت تلار بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب سات پہاڑوں کا جزیرہ ہے۔

اس کے علاوہ منوڑہ اور ہاکس بے ہے  اور ہاکس بے پر کیلپ جنگلات کے درمیان تیراکی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اس کے علاوہ فار جزیرہ ہے جہاں مینگروو بڑی تعداد میں ہیں۔

سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ ایسے منفرد کھیل ہیں جو انسان کو فطرت سے براہ راست ملاتے ہیں اور ایسا انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کسی اور کھیل میں نہیں بنتا۔

پانی میں اترتے ہی انسان ایک ایسی دنیا میں ڈوب جاتے ہیں جسے کبھی کسی نے نہ چھوا ہو یعنیٰ خراب نہیں ہوئی ہو اور ایسی دنیا جس کی جاذبیت آپ کو اپنے ساتھ بہا لے جائے۔

سمندر کی تہہ میں جانا ایک ایسا تجربہ ہے جو مسرور کن بھی ہے اور حیران کن بھی لیکن جیسے پورے کرہ ارض کی طرح بحری حیات نہایت نازک ہوتی ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے خطرہ ہوتا ہے۔

موسمی تبدیلی، زیادہ ماہی گیری اور آلودگی کا اثر ہمارے سمندروں پر پڑتا ہے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ دی ورلڈ کاؤنٹ کے مطابق دنیا بھر میں 46 فیصد مرجان کی چٹانیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی حالات بہتر نہیں۔

گذشتہ سال ہی چرنا جزیرے کے قریب مرجان کی چٹانیں اپنا رنگ کھو بیٹھیں اور سفید ہو گئیں۔ اگر ان کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی نہ کی جائے تو سفید ہونے کے بعد یہ چٹانیں مر جاتی ہیں۔

یہ وہ چٹانیں ہیں جو بحری حیات کے لیے بہت اہم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک چوتھائی بحری حیات کے لیے یہ چٹانیں مددگار ہوتی ہیں۔

جہاں ایک طرف پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ جیسے کھیلوں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے وہیں سمندری حیات کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جزیرے پر آنے والے سیاح اپنا کچرا ادھر ہی چھوڑ جاتے ہیں، سمندر میں پلاسٹک کے تھیلوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کشتیوں کی سائیّوں پر لگے ٹائرز گرتے ہیں اور ان چٹانوں پر گرتے ہیں جن سے ان کو نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان بحریہ نے 2018 میں چرنا پر جاری سیاحت پر پابندی لگا دی کیونکہ ان کے مطابق سکوبا ڈائیونگ گندگی اور آلودگی کا بڑا باعث ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمپنیوں کی جانب سے لائے گئے بڑی ٹوئرز کے نتیجے میں پلاسٹک اور گندگی پانی میں پھینکی جاتی ہے جبکہ ان کو لانے والی کشتیوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ان کی آواز سے بھی آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔  

یہ درست بھی ہے کیونکہ فلپائن میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ بڑے پیمانے پر سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کے باعث ڈائیورز کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے جس کے باعث آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

لیکن پاکستان میں کئی کمپنیاں مرجان چٹانوں کی صفائی میں آگے آگے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے اس سے قبل نقصان ناقابل تلافی ہو جائے۔

اس حوالے سے سب سے پہلا قدم ہمیں اپنے کھیل سے کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے سمندروں کے لیے ایک مثالی کھلاڑی بننا ہو گا۔

کیا واقعی ان کمپنیوں کا کاروبار ماحول دوست سیاحت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی سیاحت کے باعث ہونے والی آلودگی کی صفائی کرنے کا فائدہ ہے اگر واقعتاً ایسا کرنے سے فائدہ ہوتا ہے تو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ