یوکرین پر روسی حملہ: ’سارس پاکستان ہجرت کرسکتے ہیں‘

دنیا میں کرین یا سارس ان پرندوں میں شامل ہیں جن کی نسل معدوم ہونے کی قریب ہے اور ان کو بین الاقوامی سطح پر معدومی کے شکار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

روس اور یوکرین کے اطراف سے ہر سال موسمی حالات کی وجہ سے کرین پرندے پاکستان اور افغانستان ہجرت کرتے ہیں (تصویر: پیکسلز)

صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پاکستان ہجرت کرنے والے کرین (سارس) پرندوں کا شکار نہ کریں کیوں کہ یہ پرندے موسمی ہجرت نہیں بلکہ جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے پاکستان آئیں گے۔

محکمہ جنگلات نے اپنے جاری کیے جانے والے بیان میں لکھا ہے کہ ’روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے لاکھوں سارس (آبی پرندے) مختلف ممالک کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ان بے زبان مہمان پرندوں کا خیال رکھیں اور ان کا شکار نہ کریں کیوں کہ یہ ان کی موسمی ہجرت نہیں ہے بلکہ پریشان کن ماحول کی وجہ سے نقل مکانی ہے۔‘

یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے اطراف سے ہر سال موسمی حالات کی وجہ سے کرین پرندے پاکستان اور افغانستان نقل مکانی کرتے ہیں۔

دنیا میں کرین یا سارس ان پرندوں میں شامل ہیں جن کی نسل معدوم ہونے کی قریب ہے اور ان کو بین الاقوامی سطح پر معدومی کے شکار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

کرین کس موسم میں پاکستان آتے ہیں؟

بین الاقوامی تنظیم ’سیونگ  کرینز‘ کے مطابق سارس ایک ایسا پرندہ ہے جس کو سرحدوں کا اندازہ نہں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ سارے ممالک اس پرندے کی نسل کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

پرندوں کی نسل بچانے کے حوالے سے کام کرنے والے احسان اللہ وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سارس کی نقل مکانی سائبیریا سے گرمی کے موسم میں شروع ہوجاتی ہے اور اس کی واپسی مارچ میں ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ستمبر میں یہ دوبارہ سائبیریا سے ہجرت کر کے پاکستان آتے ہیں اور یہی ان کا مستقل راستہ ہے کیوں کہ کرین سرد موسم میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

سارس کی کتنی اقسام ہیں؟

امریکی تنظیم انٹرنیشنل کرین فاونڈیشن دنیا میں سارس کی نسل بچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق سارس دنیا میں پرندوں کی نسل میں واحد پرندہ ہے جو سب سے زیادہ معدومی کا شکار ہے۔ تنظیم کے مطابق دنیا میں سارس کی 15 اقسام میں سے 11  کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

سارس کی اقسام میں بلیک کروانڈ کرین، بلیک نیکڈ کرین، بلیو کرین، برولگا، ڈیموسیل کرین، یورو ایشیئن کرین، گرے کراونڈ کرین، ہوڈڈ کرین، ریڈ کراونڈ کرین، سینڈ ہل کرین، ساروس کرین، سائبیرین کرین، وائٹ نیپڈ کرین، اور ووپنگ کرین شامل ہیں۔

اسی تنظیم کے مطابق کرین کی نسل ختم ہونے کے خطرے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں اس پرندے کے لیے موزوں موسم نہ ہونا، شکار، زراعت کے طریقوں میں تبدیلی اور کچھ علاقوں میں اس کو پکڑنا شامل ہے۔

پاکستان میں ڈیموسیل کرین اور کامن کرین کثرت سے پائے جاتے ہیں اور یہ کرین بڑی تعداد میں پاکستان ہجرت کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلع شمالی وزیرستان  بھی یہ کرین دیکھے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرنیشنل کرین فاونڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق شمالی وزیرستان، بنوں اور لکی مروت میں کرین کی سائٹ موجود ہے اور اسی حوالے سے  تنظیم کی جانب سے ایک مقامی صحافی کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے تاکہ وہ کرین کی نسل کو بچا سکیں۔

احسان وزیر نے ’وزیرستان نیچر کنزورویشن آرگنائزیشن‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھی ہے جو مقامی زبان میں کرین کی نسل کو بچانے کے لیے عوام میں آگاہی مہم چلاتی ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا واقعی کرین پرندے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں  پاکستان کا رخ کریں گے تو اس کے جواب میں احسان نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کی جانب سے یہ تو بتایا گیا ہے تاہم ان کے تجربے کی بنیاد پر اس کے آثار بہت کم ہیں۔

احسان نے بتایا کہ کرین کی ہجرت کا ایک بین الاقوامی روٹ ہے۔ سائبیریا میں گرمی شروع ہونے کے بعد وہ صوبہ سندھ، ژوب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن وانا پہنچ جاتے ہیں اور اسی راستے سے افغانستان اور پھر مارچ تک واپس سائبیریا چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا،’ ابھی مارچ کے مہینے تک رواں سال کی  ہجرت مکمل ہوجائے گی یعنی یہ سائبیریا میں گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی بھارت پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پر انڈے دیتے ہیں اور بچے بھی پیدا کرتے ہیں اور جب ان کے بچے اڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو یہ صوبہ سندھ کے راستے ژوب سے ہوتے ہوئے وزیرستان میں داخل ہوتے ہیں۔‘

احسان کے مطابق ابھی اس موسم میں شکاری ان کے راستے میں کیمپ لگاتے ہیں اور اس کا شکار کرتے ہیں اور یہی شکار سارس کی نسل ختم ہونے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کیوں کہ اس موسم میں ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں تو ان بچوں کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔

احسان نے بتایا کہ یوکرین میں جنگ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ پرندے سائبیریا چلے جا سکتے ہیں لیکن جس روٹ پر یہ جاتے ہیں، اگر اس پر روس کے جنگی جہاز اڑتے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ واپس پاکستان آجائیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔

احسان نے بتایا کہ ستمبر تک سارس سائبیریا میں رہتے ہیں کیوں کہ وہاں پر موسم سرد رہتا ہے اور ستمبر کے بعد یہ دوبارہ نقل مکانی شروع کردیتے ہیں جب پاکستان اور بھارت میں سردی کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔

احسان نے مزید بتایا کہ کرین بظاہر تو بڑے وجود والا پرندہ ہے لیکن جہازوں سے ڈر سکتا ہے۔ لیکن اس پرندے کی خاصیت ہے کہ یہ آپس میں بے پنا محبت رکھتے ہیں۔

احسان نے بتایا: ’شکاری جب نر کا شکار کرتا ہے تو مادہ اس وقت تک شکار کی جگہ پر موجود ہوتی ہے اور یہی سوچتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے نر سارس کو شکاریوں کی پکڑ سے آزاد کرائے اور جب یہ نا امید ہوجاتی ہے تو اپنا سفر دوبارہ شروع کردیتی ہے۔‘

احسان نے بتایا کہ اعدادو شمار کے مطابق سائبیریا سے تقریبا 14 لاکھ تک کرین ہر سال پاکستان نقل مکانی کرتے ہیں لیکن اس پرندے کی حفاظت پر کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان کی تعداد میں ہر سال نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے جس کی وجہ ان کا بے تحاشہ شکار ہے۔

سید محمد علی قبائلی اضلاع کے محکمہ جنگلات و وائلڈ لائف میں ایکسیلیڑیٹڈ امپلیمنٹیشن پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ جنگلات نے آگاہی  پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ کیا ہے  لیکن ابھی تک کرین کی ہجرت کے بارے میں واضح طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یوکرین تنازعے کے ماحول میں ڈر کے مارے ہجرت کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ عام ماحول میں سارس کی نقل مکانی جنوری کے مہینے تک ختم ہوجاتی ہے لیکن ابھی جو ہجرت ہے یہ عام ہجرت نہیں ہے بلکہ سارس جنگ زدہ ماحول میں خوراک کی کمی اور دیگر مسائل کا شکار ہیں اور اس کی وجہ سے وہ فورسڈ مائگریشن کریں گے۔

محمد علی نے بتایا: ’ابھی تک ہمیں پتہ نہیں کہ اس ہجرت کے دوران کرین کو کہاں پر پرامن ماحول ملے گا اور نہ ہمیں پتہ ہے کہ کتنی تعداد میں سارس آئیں گے لیکن ہم نے آگاہی کے لیے لوگوں کا آگاہ کیا ہے اور اگر محکمہ وائلڈ لائف نے کسی قسم کی مائگریشن نوٹ کی تو وہ ان کے شکار کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔‘

محمد علی نے بتایا کہ ’یوکرین میں جنگ زدہ ماحول کی وجہ سے سارس کو ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ اس موسم میں سارس انڈے دیتے ہیں اور جب ان کو سازگار ماحول میسر نہ ہو تو آسانی سے مر جاتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات