یوکرین جنگ کے اثرات جنوبی ایشیا پر بھی

گو جنگ کا براہ راست اثر یورپی سرحدوں پر پڑ رہا ہے لیکن اس کے باعث جنوبی ایشیا میں سیاسی وفاداریوں کی ایک نئی داستان بھی رقم ہو رہی ہے۔

جرمنی کے شہر برلن میں تین مارچ 2022 کو یوکرین پر روسی حملے کے خلاف احتجاج (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

روس اور یوکرین کی ایک ہفتے سے جاری جنگ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار یورپ کے لیے وہ ہڈی بن گئی جو حلق میں پھنس کر رہ گئی ہے۔

روس کو زیر کرنا اتنا آسان نہیں اور نہ وہ نیٹو کی توسیع پسندی کے لیے کبھی راضی ہو سکتا ہے۔

گو جنگ کا براہ راست اثر یورپی سرحدوں پر پڑ رہا ہے لیکن اس کے باعث جنوبی ایشیا میں سیاسی وفاداریوں کی ایک نئی داستان بھی رقم ہو رہی ہے۔

اکثر مبصر خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ ’یوکرین پر روس کی جارحیت کو بعض ممالک اپنے حریفوں پر حملے کرنے کا جواز بنا سکتے ہیں، اگر روس کو یوکرین سے باہر نہ نکالا گیا تو تائیوان، فلسطین یا کشمیر پر بھی ایسی جارحیت کے لیے دنیا کو تیار رہنا ہو گا۔‘

بھارت نے جب 1998 میں جوہری تجربے کیے تھے تو یوکرین پہلا ملک تھا کہ جس نے بھارت پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر بھارت نے اسے نظرانداز کر کے یوکرین کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات مضبوط کر دیے۔

یوکرین اور پاکستان کے بیچ گہرے دفاعی رابطے ہیں۔ اس نے پاکستان کو اب تک ڈیڑھ ارب ڈالر کے برابر اسلحہ فراہم کیا ہے جس میں ٹی 80 ٹینک بھی شامل ہیں۔ البتہ یوکرین نے کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے موقف کی کبھی حمایت نہیں کی۔

گذشتہ برس اگست میں افغانستان پر طالبان کی فتح اور امریکی اتحادیوں کے فوری انخلا کے بعد اس خطے کی سیاسی صورت حال نے نئی کروٹ لی ہے۔ چین، روس، پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی ملک ایک بلاک کی شکل میں نمودار ہو رہے ہیں جبکہ بھارت، امریکہ سمیت مغربی ملکوں کی صف میں شامل نظر آ رہا ہے۔

اب یوکرین میں روسی فوج کشی کے دوران ایک اور منظر نامہ ابھر کر آیا ہے۔ جب روسی افواج یوکرین کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں، پاکستان کے وزیراعظم روس کے دورے پر پہنچ کر روسی صدر ولادی پوتن سے ملاقات کر رہے تھے جو بظاہر بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔ لیکن یوکرین اور نیٹو ممالک کی سیاسی حلقوں میں اس دورے کو غیر مناسب سمجھا گیا۔

بھارتی میڈیا نے عمران خان کے روسی دورے کو خوب اچھالا، پاکستانی میڈیا نے اس پر ماتم کیا اور عالمی میڈیا نے بھارت کی موجودہ خارجہ پالیسی کو اس وقت شدید نشانہ بنایا جب یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے نریندر مودی سے روس پر دباؤ ڈال کر جنگ بند کرانے کی اپیل کی اور بھارت نے خاموشی اختیار کی۔

گو بھارت اور پاکستان نے یوکرین اور روس کے بیچ موجودہ فوجی تصادم پر غیر جانبدار رویہ اختیار کرتے ہوئے فوج کشی کے بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے، مگر روس کے اس اقدام سے عالمی سطح پر کئی خدشات نے جنم لیا ہے۔ برصغیر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان ملکوں کے بیچ دیرینہ تنازعات کے باعث ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے کا نیا جواز پیدا ہو گیا ہے۔

چین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ تائیوان کو ہڑپنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ بھارت اپنے زیر انتظام ایک بڑے علاقے لداخ اور اروناچل پردیش پر پہلے ہی قبضہ کر کے اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ چین نے بارہا کہا ہے کہ اروناچل پردیش پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کہتا ہے کہ چین نے اروناچل پردیش سے ملحقہ علاقے میں عسکری انفرسٹرکچر کھڑا کر کے بھارت کو للکارا ہے۔

بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیم کے کئی کارکنوں نے حال ہی میں مین سٹریم اور سوشل میڈیا کی سپیسز میں مودی سرکار سے کہا ہے کہ وہ روس کی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کر کے اس پر اسی طرح سے قبضہ کر لے جیسا روس یوکرین میں کر رہا ہے۔

ادھر جموں و کشمیر کے آزادی پسندوں میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ عمران خان کے روس کے حالیہ دورے، افغانستان میں طالبان حکومت اور یوکرین کی بدلتی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے حصول کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہے اوراس کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جواز بھی رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے پارلیمان میں اس بات کو کئی بار دہرایا ہے کہ وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر چھین لیں گے۔

بعض دفاعی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ اگلے پارلیمانی انتخابات یعنی 2024 سے پہلے بی جے پی کی حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کرنے والی تھی لیکن لداخ میں چین کی فوج کشی نے اس کو فی الحال ٹال دیا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم کے روس کے حالیہ دورے کے بعد ایک بیان جاری ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ ولادی میر پوتن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اُٹھایا گیا اور اس مسئلے سمیت تمام متنازع مسئلوں کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ روس جموں و کشمیر کو بھارت پاکستان کے بیچ باہمی مسئلہ سمجھتا ہے جس کو شملہ معاہدے کے تحت حل کرنے پر زور دیا جانا چاہیے۔

یورپ میں نیٹو اور یورپی یونین کی اندرونی خلفشار، روس کی چڑھائی، یوکرین میں گوریلا جنگ کے امکانات کے پیش نظر یہ بات یقینی نظر آ رہی ہے کہ دنیا میں چین اور روس کے زیر انتظام جو نیا بلاک بننے لگا ہے اس میں زیادہ تر وہ سارے مسلمان ممالک شامل ہو رہے ہیں جو خود کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ستائے ہوئے تصور کر رہے ہیں۔

بھارت کے بغیر جنوبی ایشیا کے تقریباً سبھی ممالک چین اور روس کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہو گی کہ کیا بھارت نئے بلاک میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گا یا پھر امریکہ کا اتحادی بن کر پڑوسیوں کی مزید ناراضگی مول لے گا؟

کیا پاکستان روس کا حلیف بن کر وہ مقام حاصل کرے گا جو روس نے گذشتہ برسوں میں بھارت کو دیا تھا؟

اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ بدلتے سیاسی تناظر میں کشمیر آئندہ میدان جنگ کی شکل اختیار کرے گا یا باہمی بات چیت سے اس تنازعے کو حل کیا جا سکے گا؟

لندن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر روہت بھٹل کہتے ہیں کہ ’اس کا انحصار بھارت کی موجودہ حکومت پر ہے کہ کیا وہ ہندوتوا کی پالیسی برقرار رکھ کر ملک کو متحد رکھ پائے گی۔ کشمیر سے پہلے بھارت کے عوام کو دیکھنا ہو گا کہ وہ سیکولر بھارت چاہتے ہیں یا ہندو راشٹر، اس کے بعد ہی کشمیر پر بات کرنا مناسب ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان نے نئی قومی پالیسی تو ترتیب دی ہے لیکن کیا اس نے واقعی کشمیر پر اپنی سوچ تبدیل کی ہے، اس کی ضمانت کون دے گا۔ جس طرح تاریخ خود کو تبدیل کر رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے برصغیر کے جغرافیہ کا تبدیل ہونا دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح ہے۔‘


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ