جب پوری دنیا کراچی ٹیسٹ دیکھنے لگی

کراچی ٹیسٹ کا نتیجہ تو وہی آیا ہے جو اب سے کچھ روز قبل راولپنڈی میں کھیلے جانے والے میچ کا آیا تھا مگر اس مرتبہ کچھ ایسا ہوا کہ پوری دنیا آخری گیند تک نیشنل سٹیڈیم کراچی کو دیکھتی رہی۔

بابر اعظم شاندار اننگز کھیلنے کے بعد میدان سے باہر جاتے ہوئے مڑ کر آسٹریلوی کھلاڑیوں کو دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

کراچی ٹیسٹ کا نتیجہ تو وہی آیا ہے جو اب سے کچھ روز قبل راولپنڈی میں کھیلے جانے والے میچ کا آیا تھا مگر اس مرتبہ کچھ ایسا ہوا کہ پوری دنیا آخری گیند تک نیشنل سٹیڈیم کراچی کو دیکھتی رہی۔

راولپنڈی ٹیسٹ کے بعد جو مایوسی چھائی تھی اسے دونوں ہی ٹیموں نے کراچی میں عمدہ کھیل پیش کر کے ایسا ہٹایا کہ ہر کوئی کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ’مزہ آگیا۔‘

کراچی میں ٹیسٹ میچ کا آغاز ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ پھر سے صرف بلے باز ہی کھیلتے رہیں گے مگر اچانک میچ میں ایسا موڑ آیا کہ دونوں ہی ٹیمیں کبھی میچ جیتنے کی پوزیشن میں آئیں تو کبھی ڈرا کی صورتحال بننے لگی۔

مگر میچ کے چوتھے اور پانچویں دن صرف بابر اعظم ہی چھائے رہے، جنہوں نے ایسا کھیل پیش کیا کہ سوشل میڈیا پر بھی صرف انہی کی بات ہونے لگی۔

بابر اعظم نے ایسا کھیل پیش کیا کہ ملکی اور غیرملکی، موجودہ اور سابق کھلاڑی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

وہ ان دو دنوں میں اپنے لیے کھیلے ہی نہیں بلکہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ بابر اعظم کا مشن صرف پاکستان کو بچانا ہے۔

میچ کے چوتھے روز بابر اعظم نے جب سینچری سکور کی تو انہوں نے ڈریسنگ روم کی طرف صرف ایک ہی اشارہ کیا کہ میں ابھی کھڑا ہوں۔

بابر اعظم ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھے اننگز میں سب سے زیادہ انفرادی سکور بنانے والے کپتان بھی بنے جبکہ انہوں نے 26 سالوں میں سب سے طویل چوتھی اننگز بھی کھیلی۔

وہ اس موقع پر اپنی ڈبل سنچری تو مکمل نہ کر پائے مگر میچ ضرور بچا گئے۔

انہوں نے 425 گیندوں پر 196 رنز بنائے جس میں 21 چوکے اور ایک چھکا شامل ہے۔

ان کی یہ اننگز اس لیے بھی یادگار ہے کیونکہ پہلی اننگز میں صرف 148 رنز پر آؤٹ ہونے والی پاکستان ٹیم کے لیے میچ کو ڈرا کرنا ہی ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔

ایسے میں ابتدائی دو وکٹیں گرنے کے بعد بابر اعظم اور نوجوان عبداللہ شفیق نے شاندار اننگز کھیلی اور تیسری وکٹ کی شراکت میں 228 رنز بنا کر ایک موقع پر جیت کی امیدیں بھی جگا دی تھیں۔

عبداللہ شفیق نے 305 گیندوں پر 96 رنز کی اننگز کھیلی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان دونوں بلے بازوں کے علاوہ پاکستان کی اس ’فائٹ بیک‘ میں محمد رضوان نے بھی عمدہ کھیل پیش کیا اور ذمہ دارانہ انداز میں کھیلتے ہوئے میچ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا۔

محمد رضوان 177 گیندوں پر 104 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

دوسری طرف آسٹریلوی بولرز نے بھی عمدہ بولنگ کی تاہم بابر اعظم، عبداللہ شفیق اور محمد رضوان کے ’ڈیفینس‘ کو نہ توڑ سکے۔

آسٹریلیا کی جانب سے نیتھن لائن سب سے کامیاب بولر رہے جنہوں نے دوسری اننگز میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جس میں دو لگاتار گیندوں پر بابر اعظم اور فہیم اشرف کی وکٹیں بھی شامل ہیں۔

دنیا کراچی ٹیسٹ کو کیسے دیکھتی رہی اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر کیا تبصرے ہوتے رہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مایاناز سپنر رویچندرن ایشون نے چوتھے دن کے کھیل کے اختتام پر بابر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’کل ایک شاندار اختتام ہونے والا ہے۔‘

اس کے بعد انہوں نے میچ کے پانچویں دن ٹویٹ کی اور لکھا کہ ’کیا پاکستان 506 کے تعاقب میں جا رہا ہے۔۔۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ہمارے اگلے دو گھنٹے بہت شاندار ہونے والے ہیں۔‘ اور پھر میچ کے اختتام پر انہوں نے ایک اور ٹویٹ کی: ’کیا ہی ٹیسٹ میچ تھا یہ۔‘

صرف ایشون ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے بھی لکھا کہ ’ایک بار پھر بابر اعظم اپنی کلاس دکھا رہے ہیں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ’میرے خیال میں اس وقت دنیا میں بابر اعظم کے بیسٹ آل راؤنڈ بیٹر ہیں پر کوئی سوال نہیں۔ وہ تمام فارمیٹس میں بہترین ہیں۔‘

معروف بھارتی کامنٹیٹر ہرشا بھوگلے کہتے ہیں کہ ’ٹیسٹ کرکٹ جہاں بابراعظم کو آگے آنے کی ضرورت تھی اور آپ کے سامنے ہے۔ 480 رنز بنانے تھے اور 170 اوورز بیٹنگ کرنا تھی جب وہ کریز پر آئے۔ معجزانہ جیت کی امید تو تھی مگر ڈرا بھی ایک شاندار نتیجہ ہے۔ کیا پلیئر ہیں۔‘

پاکستان کے سابق وکٹ کیپر بیٹسمین اور کپتان راشد لطیف نے تو بابر اعظم کو ’پاکستانی بریڈمین‘ قرار دے دیا۔

سابق بھارتی کرکٹر وسیم جعفر نے لکھا کہ ’کچھ اننگز جیت دلاتی ہیں مگر کچھ کردار بناتی ہیں، اور یہی آگے چل کر مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بابر اعظم اور ٹیم کی کردار ساز اننگز اور میچ۔ پیٹ کمنز کی ٹیم کو بھحی شاباش، وہ کچھ خاص کرنے ہی والے تھے۔‘

میچ کا سکور کارڈ

آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پہلی اننگز میں عثمان خواجہ کے عمدہ 160 اور سٹیو سمتھ کی 72 رنز کی اننگز کی بدولت پہلی اننگز 556 رنز نو کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کر دی تھی۔

اس کے جواب میں پاکستان اپنی پہلی اننگز میں صرف 148 رنز ہی بنا سکا تاہم آسٹریلیا نےفالو آن نہ کرنے کی بجائے دوبارہ بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسری اننگز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 97 رنز پر اننگز ڈکلیئر کر دی۔

اس طرح پاکستان کو 507 رنز کا ہدف ملا تھا جس کے جواب میں امام الحق ایک اور اظہر علی صرف چھ رنز ہی بنا سکے۔ ان کے علاوہ پاکستان کی طرف سے فواد عالم اور ساجد خان نے نو، نو رنز کی اننگز کھیلی جبکہ فہیم اشرف بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئے۔

پاکستان نے بابر اعظم کے 196، عبداللہ شفیق 96 اور محمد رضوان کے 104 رنز کی بدولت اپنی دوسری اننگز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 443 رنز بنائے اور اس طرح ایک شاندار ٹیسٹ میچ بغیر ہار جیت کے ختم ہو گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ