ایران کی قید سے رہا ہونے والی نازنین زاغری کون ہیں؟

ایران میں چھ سال تک قید میں رہنے والی برطانوی شہری نازنین زاغری رہائی پانے کے بعد اپنے شوہر اور بیٹی کے پاس واپس برطانیہ پہنچ گئی ہیں۔

ایران میں چھ سال تک قید میں رہنے والی برطانوی شہری نازنین زاغری رہائی پانے کے بعد اپنے شوہر اور بیٹی کے پاس واپس برطانیہ پہنچ گئی ہیں۔

نازنین کے ساتھ ایک اور ایرانی نژاد برطانوی شہری انوشہ اشوری کو بھی تہران نے رہا کیا جنہوں نے برطانیہ پہنچنے سے پہلے مسقط کے لیے پرواز لی۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق 67 سالہ اشوری ایک ریٹائرڈ سول انجینیئر اور دو بچوں کے والد ہیں جو ایران میں پیدا ہوئے اور دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

2017 میں انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی والدہ سے ملنے کے لیے ایران پہنچے تھے۔

اشوری پر اسرائیل کی موساد انٹیلی جنس ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے اور غیر قانونی طور پر رقم حاصل کرنے کا الزام تھا۔

وہ ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔ انہیں 2019 میں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اشوری اور تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے منسلک 43 سالہ نازنین نے انتھک مہم کے بعد آخر کار 17 مارچ کی صبح برطانیہ میں لینڈ کیا۔

بطور آزاد شہری رائل ایئر فورس کے طیارے کے ذریعے عمان سے برطانیہ روانہ ہونے کے لمحے کو نازنین کے شوہر رچرڈ ریٹکلف نے اپنے خاندان کے لیے سکون کا باعث بتایا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے خیال میں یہ ایک نئی اور ایک نارمل زندگی ہو گی اور امید ہے کہ ایک خوش کن خاندان کا آغاز ہو گا۔‘

ان کے مطابق ’پہلی چیز جو وہ چاہتی تھیں وہ یہ تھی کہ میں ان کے لیے چائے کا ایک کپ بناؤں۔ تو ہم ایسا ہی کریں گے۔‘

نازنین کی زندگی تین اپریل، 2016 کو اس وقت مصیبت میں گھیر گئی جب انہیں تہران ہوائی اڈے پر اپنی بیٹی گیبریلا کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔

وہ نئے ایرانی سال کے موقعے پر اپنے اہل خانہ سے ملنے تہران پہنچی تھیں۔

اے ایف پی کے مطابق ان پر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام لگایا گیا جس کی وہ ہمیشہ تردید کرتی رہیں۔

گرفتاری کے بعد انہیں اپنی بیٹی سے الگ کر دیا گیا اور ان کا برطانوی پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔

اُسی سال ستمبر میں انہیں پانچ سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔

جیل میں ان کا وقت ایک طویل جدوجہد کا آغاز تھا جہاں انہوں نے قیدِ تنہائی، کھڑکیوں کے بغیر کال کوٹھری میں زندگی، بھوک ہڑتال اور طبی علاج کی محرومی جیسی تکالیف کا سامنا کیا۔

ان کے شوہر رچرڈ ریٹکلف کے مطابق کہ وہ ایک ماہ سے زیادہ ایک ہی کپڑوں میں سوتی رہیں اور انہوں نے کئی بار خودکشی کا بھی ارادہ کیا۔

رچرڈ ریٹکلف نے 2020 میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ ہمیشہ سے ہی وفاداری اور انصاف کا گہرا احساس رکھنے والی خاتون رہی ہیں۔ اور یقینی طور پر ان کو اس بات پر شدید غصہ ہے کہ یہ سب کتنا غیر منصفانہ ہے۔‘

مارچ 2019 میں برطانوی حکومت  نے انہیں سفارتی تحفظ کا درجہ دیا تھا لیکن ایک بے تکے بیان سے انہیں پہلے ہی نقصان پہنچ چکا تھا۔

دراصل اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ اور موجودہ وزیراعظم بورس جانسن نے 2017 میں کہا تھا کہ نازنین صحافیوں کو تربیت دینے کے لیے ایران میں ہیں جس کی انہوں نے سختی سے تردید کی۔

قید کے دورن ایک کھلے خط میں نازنین نے کہا کہ اپنی بیٹی سے الگ رہنا ان کے لیے سب سے بڑی اذیت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا وبا کے خدشات کی وجہ سے انہیں 2020 کے اوائل میں جیل سے تو رہا کر دیا گیا لیکن ایران میں ہی ایک گھر میں نظربند رکھا گیا۔

لیکن دیگر قیدیوں کے برعکس ان کی سزا معاف نہیں کی گئی اور اپریل 2021 میں 2009 میں لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ایک مظاہرے میں حصہ لینے کے الزام میں انہیں مزید 12 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

وہ گذشتہ سال اکتوبر میں اس سزا کے خلاف اپیل ہار گئی تھیں۔

رچرڈ ریٹکلف نے کہا کہ ان کی اہلیہ کو واضح طور پر ایک سیاسی کھیل کے ایک حصے کے طور پر ’یرغمال‘ بنایا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق برطانیہ پر ایران کے شاہ کے زمانے سے واجب الادا قرض کے لیے انہیں یرغمال بنایا گیا۔

حکومت نے کبھی بھی سرکاری طور پر نازنین کی حراست کو برطانیہ پر واجب الادا ایرانی قرض سے نہیں جوڑا لیکن ان کی رہائی کے اعلان کے فوراً بعد برطانیہ نے کہا کہ حکومت نے 40 کروڑ پاؤنڈز کا بقایہ قرض ادا کیا ہے۔

رچرڈ ریٹکلف 2007 میں نازنین سے اس وقت ملے جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھیں۔ انہوں نے دو سال بعد شادی کر لی تھی۔

نازنین نے تہران یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی اور وہ ایران میں ریڈ کراس اور عالمی ادارہ صحت کے لیے کام کر چکی تھیں۔

لندن میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے منسلک ہونے سے پہلے انہیں نے بی بی سی میڈیا ایکشن کے لیے کام کیا۔ یہ براڈکاسٹر کا بین الاقوامی خیراتی ادارہ جو آزاد میڈیا کو سپورٹ کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا