صدارتی ریفرنس: کتنے صدور نے کن معاملات پر عدالت سے رائے لی؟

صدر عارف علوی پاکستان کے اُن صدور میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے آئین کے شقوں کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے دوسری مرتبہ رجوع کیا۔

صدر عارف علوی 23 مارچ 2019 کو اسلام آباد میں یوم پاکستان کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں جبکہ تصویر میں وزیراعظم عمران خان، ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد، آذربائیجان کے وزیر دفاع کرنل جنرل ہزانوو ذاکر اور پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک بھی نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی فائل)

صدر ڈاکٹر عارف علوی پیر کو پاکستان کے اُن صدور میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے آئین کی شقوں کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے دوسری مرتبہ رجوع کیا ہے۔

انہوں نے صدر پاکستان کی حیثیت سے لگ بھگ ایک برس کے وقفے سے سپریم کورٹ میں دوبارہ ریفرنس دائر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے پر صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے پہلے صدر پاکستان نے دسمبر 2020 میں ایک ریفرنس دائر کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں ووٹ دینے کے طریقے پر رائے مانگی تھی۔

اس مرتبہ صدر علوی نے آئین کی شق 63 (الف) کے بارے میں رائے مانگی ہے جو رکن  اسمبلی کے اپنی سیاسی جماعت کی منشا کے برعکس ووٹ دینے سے متعلق ہے۔

انہوں نے یہ رائے ایک ایسے وقت پر مانگی جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔

ان کے خیال میں یہ قانونی نکتہ تصفیہ طلب ہے کہ کیا حکمران جماعت کے ارکان قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دے سکتے یا نہیں؟

آئین کی شق 186 کے تحت صدر مملکت کسی قانونی نکتے پر جو مفاد عامہ کا حامل ہو، سپریم کورٹ سے رائے لے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ صدر مملکت کو قانونی نکتے پر غور کے بعد اپنی رپورٹ دیتی ہے۔

آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت صدر مملکت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرتے ہیں۔ اس معاملے پر تاریخ کو ٹٹولا جائے تو اب تک ایک درجن کے قریب ریفرنس دائر کیے گئے، جن پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنی رائے دی۔

73  کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت، صدر مملکت غلام اسحاق خان، صدر فاروق احمد خان لغاری، فوجی صدر جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور موجودہ صدر عارف علوی نے یہ اختیار استعمال کیا ہے۔ تاہم جنرل ضیا الحق، صدر رفیق تارڑ اور صدر ممنون حسین نے کسی صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد واحد گورنر جنرل نے اپنے دور یعنی 1955 میں دو مختلف معاملات پر اعلیٰ عدلیہ سے رائے مانگی تھی لیکن اس کے بعد 20 برس تک سپریم کورٹ میں کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا۔

گورنر جنرل غلام محمد نے امور مملکت چلانے اور صوبائی اسمبلی کے تحلیل کے بارے میں ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنگلہ دیش کو ملک کی حیثیت سے  تسلیم کرنے کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

حکومت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں رائے لینے کے لیے اس وقت کے صدر مملکت فضل الہیٰ نے ریفرنس دائر کیا۔ یہ پہلا ریفرنس تھا جو 1973 کے آئین کے تحت سپریم کورٹ میں دائر ہوا۔

خیال رہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے رائے دی تھی کہ قومی اسمبلی میں ایسے معاملے پر بحث کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

اس کے بعد نہ تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کوئی ریفرنس دائر ہوا اور نہ ہی جنرل ضیا الحق نے بطور صدر مملکت سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ پھر 1989 میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 186 کو دو مرتبہ استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے وفاقی اور صوبائی حکومت کے فنڈز کی قانونی معیاد ختم ہونے کے بعد اس کے استعمال کے سوال پر اور دوسرا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے اختیارات کے بارے میں۔

اپنے پیشرو کی طرح صدر فاروق احمد خان لغاری نے آئین کے آرٹیکل 186 کا سہارا لیا اور بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران 1996 میں ریفرنس دائر کیا کہ کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے لیے صدد مملکت وزیر اعظم کے مشورے کے پابند ہیں؟

ریفرنس پر سماعت کے دوران ہی انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو استعمال کیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت رخصت کرتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا۔

ججوں کی تقرری کے تنازعے پر فاروق لغاری نے ایک اور ریفرنس بھی دائر کیا تھا لیکن وہ واپس لے لیا گیا۔

بے نظیر بھٹو واحد وزیراعظم تھیں جن کے دو مختلف ادوار میں دو مختلف صدور نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیے۔

10 برس کے طویل وقفے کے بعد فوجی صدر پرویز مشرف نے صوبائی حکومت کے ایک بل پر سپریم کورٹ سے رائے مانگی۔

ہوا کچھ یوں کہ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد یعنی متحدہ مجلس عمل نے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی اور 2005 میں حسبہ بل متعارف کرایا، جس کے بارے میں یہ تاثرعام تھا کہ اس سے صوبے میں متوازی عدالتی نظام قائم ہو جائے گا۔

جنرل پرویز مشرف نے بل پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا اور ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی۔

اُس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں فل بینچ نے بل کی بعض شقوں کو قانون کے منافی قرار دے دیا۔

صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے کو ری اوپن کرنے پر رائے مانگی۔

ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا الحق کے دور پر لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا دی تھی جسے اکثریتی فیصلے نے برقرار رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر چار اپریل، 1979 میں عمل کیا گیا اور آصف علی زرداری نے 30 برس کے بعد دو اپریل، 2011 کو صدارتی ریفرنس دائر کیا جو ابھی تک زیر سماعت ہے۔

نواز شریف کے ادوار میں صدر رفیق تارڑ کی طرح ممنون حسین نے بھی کسی قانونی نکتے کی تشریح یا رائے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

لگ بھگ 10 سال بعد موجودہ صدر مملکت عارف علوی نے دسمبر 2020 میں ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جس میں سینیٹ میں رائے شماری کے لیے خفیہ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے پر رائے مانگی۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے رائے دی کہ سینیٹ کے انتخابات قانون نہیں بلکہ آئین کے تحت ہوں گے اور اوپن بیلٹ کے ذریعے رائے شماری نہیں کرائی جاسکتی۔

اب ایک سال گزرنے کے بعد صدر علوی نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

بے نظیر بھٹو اور عمران خان وہ وزرائے اعظم ہیں جن کے دور میں قانونی نکات پر رائے کے لیے ایک سے زائد مرتبہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست