پنجاب: حکومت سازی کے لیے کس کا پلڑا بھاری؟

حکومت نے عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد فوری طور پر آج صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ جلد از جلد وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانے کی بھی تیاری میں ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے حکومت چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کر چکی ہے، جبکہ مسلم لیگ ن حمزہ شہباز کو۔ متحدہ اپوزیشن نے بھی حمزہ کو نامزد کرنے جا رہی ہے۔ (تصاویر: چوہدری پرویز الٰہی ٹوئٹر اکاؤنٹ، حمزہ شہباز ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کا عمل اتوار (تین اپریل) کو متوقع ہے تو دوسری طرف پنجاب میں بھی اس وقت وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ تیز ہوچکی ہے۔

حکومت نے عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد فوری طور پر دو اپریل یعنی آج صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ جلد از جلد وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانے کی بھی تیاری میں ہے تاکہ حزب اختلاف کو جیتنے کے لیے مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل نہ ہوسکے۔

سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کے مطابق اجلاس کے پہلے ہی روز انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا، جس کے بعد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کیے جائیں گے۔ پولنگ کے وقت کا اعلان سپیکر کریں گے اور ایجنڈے میں وزیراعلیٰ کا چناؤ کرنے کے لیے پولنگ بھی شامل ہے۔

حکومت کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا گیا ہے اور مسلم لیگ ن کی جانب سے حمزہ شہباز کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم جمعے کی رات متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے سابق رکن علیم خان کا نام بھی زیر غور تھا۔

نائب صدر مسلم لیگ ن پنجاب رانا مشہود احمد خان نے جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں نے متفقہ طور پر میاں نواز شریف کی مشاورت سے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار حمزہ شہباز شریف ہوں گے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کا رات گئے تک ہونے والے اجلاس میں حمزہ شہباز اور علیم خان کے ناموں پر غور جاری رہا اور حتمی امیدوار کا اعلان آج ہفتے کو کیا جائے گا۔

تاہم ہفتے کی صبح مسلم لیگ ن کے رہنما اسحٰق ڈار نے دعویٰ کیا کہ لندن میں جہانگیر ترین سے ملاقات کے دوران معاملات طے پاگئے ہیں اور انہوں نے حمزہ شہباز کی حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

 

کامیابی کے لیے دونوں طرف سے اراکین کی مطلوبہ حمایت حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔

پنجاب کے ایوان میں پارٹی پوزیشن کے تحت ابھی تک کسی بھی فریق کی کامیابی حتمی دکھائی نہیں دے رہی لیکن اگر موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو دونوں طرف پلڑا برابر دکھائی دیتا ہے۔

سیکرٹری اسمبلی کے مطابق عثمان بزدار کے خلاف اپوزیشن کی جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد ان کے استعفے کے بعد غیر موثر ہوچکی ہے اور اب نیا انتخاب ہوگا۔

پنجاب میں پارٹی پوزیشن

پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔

سردار عثمان بزدار 194 ووٹوں سے 2018 میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے۔ ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں کے ساتھ ان کو حمایت فراہم کی تھی، جس کے بدلے میں پارٹی کے صدر پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا تھا اور دو صوبائی وزارتیں بھی دی گئی تھیں۔

پنجاب اسمبلی کے اندر پارٹی پوزیشن اب ایسی ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں، ق لیگ کے پاس 10 اور راہ حق پارٹی کے پاس ایک رکن ہے جبکہ اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین اور پیپلز پارٹی کے پاس سات ہیں۔ اسمبلی میں تین اراکین آزاد ہیں، جن میں سے جگنو محسن نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ چوہدری نثار نے بطور ایم پی اے کسی جماعت کو ووٹ دینے کا اعلان نہیں کیا۔

غیر یقینی صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ پی ٹی آئی کے اندر ہی تین گروپ بن چکے ہیں۔ پہلا گروپ جہانگیر ترین کی قیادت میں بنا ہوا ہے جو 20 اراکین کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ دوسرا گروپ علیم خان کی قیادت میں سامنے آیا جو 15 اراکین کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اور تیسرا ہم خیال گروپ ہے، جس کی قیادت ایم پی اے غضنفر چھینہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ 14 اراکین ہیں۔

متحدہ اپوزیشن کی صورت حال بھی اس لیے واضح نہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے پانچ اراکین اسمبلی ناراض ہیں اور قیادت پر عدم اعتماد  ظاہر کرچکے ہیں۔

جیت کے لیے نمبر گیم کہاں تک پہنچی؟

حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا امیدوار نامزد کیا جا چکا ہے، مگر متحدہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ کے لیے حمزہ شہباز کی نامزدگی متوقع، جیسے اسحٰق ڈار ٹوئٹر پر کہہ چکے ہیں۔

سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے دھڑا دھڑ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہ حکومتی وزرا سے بھی مل رہے ہیں جبکہ مختلف اراکین صوبائی اسمبلی سے بھی ان کی ملاقاتیں جاری ہیں۔

ہم خیال چھینہ گروپ کے رہنما غضنفر چھینہ نے اپنے گروپ سے ملاقات کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے، جبکہ اسحٰق ڈار کے مطابق جہانگر ترین گروپ اپوزیشن کا ساتھ دے گا۔

دوسری جانب علیم خان گروپ کے رہنما میاں خالد محمود کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی فیصلہ کر چکے ہیں کہ حکومتی امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق اپوزیشن سے معاملات طے پا رہے ہیں اور جیسے ہی ان سے بات چیت مکمل ہوجائے گی، باقاعدہ حمایت کا اعلان کریں گے یا جو بھی حکمت عملی ہوگی سامنے لائیں گے۔

صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ رابطے حکومت کی جانب سے بھی کیے جارہے ہیں لیکن ہم نے انہیں جواب دے دیا ہے۔

چوہدری نثار سے بھی اپوزیشن اور حکومت کے رابطے جاری ہیں لیکن اپوزیشن کو ابھی تک آزاد رکن جگنو محسن کی شمولیت سے کامیابی ملی ہے۔ ایک آزاد رکن علی احمد اولک نے بھی کسی کی حمایت نہیں کی، دوسری جانب مسلم لیگ ن کے پانچ منحرف اراکین کو منانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سے پہلے وہ چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کر کے حمایت کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔

کامیابی کے لیے فیصلہ کن کردار

سینیئر صحافی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں صورت حال واضح نہیں ہے کیونکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی میں اندرونی گروپنگ ہے۔ ان کے مطابق پرویز الٰہی اگرچہ مضبوط امیدوار ہیں لیکن اگر جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہیں تو وزیراعلیٰ اپوزیشن کا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں گروپوں نے قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے اور حکومت اب تک انہیں راضی نہیں کر سکی ہے۔

سلیم بخاری کے بقول فلور کراسنگ کا خوف پیدا کر کے اپنے اراکین کو ساتھ ملانے کی کوشش بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس وقت لوگوں کو آئندہ عام انتخاب میں مسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی خواہش زیادہ دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب فوری منعقد کرانے کا فیصلہ بھی اس لیے کیا تھا کہ اپوزیشن کو تیاری کا وقت نہ مل سکے، مگر اپوزیشن تو پہلے ہی ترین اور علیم خان گروپ کے ساتھ ٹکٹوں کے وعدے کر چکی ہے اور وفاق میں بھی ان دونوں گروپوں کے حمایتی منحرف اراکین اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں۔

سلیم بخاری نے کہا کہ مقابلہ بظاہر کافی سخت دکھائی دیتا ہے مگر متحدہ اپوزیشن کو اس وقت زیادہ مارجن حاصل ہے کیونکہ ترین اور علیم گروپ کی حمایت کے بغیر پرویز الٰہی کا کامیاب ہونا مشکل لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے چوہدری پرویز الٰہی کی اپوزیشن سے معاہدوں کی اطلاعات کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں اور اراکین میں پائی جانے والی تشویش بھی ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان