’فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، نہیں تو انصاف تار تار‘

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’یہاں کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کو آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیس کی سماعت کی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ امریکی جج کے مطابق عدالتی فیصلہ نہ ماننے والی حکومت کو لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔ ’یہاں کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔‘

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے، جو بات لیڈر کرتا ہے عوام اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کو آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

تحریک انصاف کی طرف سے ایڈووکیٹ بابر اعوان کمرہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ایڈوکیٹ فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے لیے اٹارنی جنرل نے سیاسی و اخلاقی دلائل دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی۔ ہر عمل کا دارو مدار نیت پر ہے۔‘

فاروق ایچ نائیک کا عدالت میں کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی آئین میں شمولیت کی نیت بھی دیکھنی ہو گی۔ آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں۔ ہر حکومت اور آمر آرٹیکل 58 ،62,63 اور 96 میں ترمیم کرتے رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا۔ ’دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے طے کرنا ہے کہ منحرف ہونا درست ہے یا غلط۔ منحرف ہونا غلط قرار پایا تو دیکھیں گے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ کئی مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش ہے۔ پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے؟

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی اسمبلی کی بقیہ مدت تک ہو گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پارٹی سے انحراف کو جرم تسلیم کر رہے ہیں۔ ’اگر پارٹی سے انحراف جرم ہے تو مجرم کا ووٹ کیوں شمار ہوتا ہے۔‘ اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ’قتل کا ارادہ کرنے پر 302 کا کیس نہیں بن سکتا۔ جرم کی سزا کتنی ہے اصل سوال یہ ہے۔ آرٹیکل 58(2)B کے خاتمے پر آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے سینیٹ الیکشن کیس میں رائے دی کسی نے اس کی پیروی نہیں کی۔ سیاسی جماعت پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں۔

’پارٹی سے انحراف کرنے والے کو دوسری جگہ عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف میں عدالتی ڈیکلریشن شامل کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ممبر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے۔ یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ہمارا ملک اس وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کوئی سپریم کورٹ فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔‘ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں، عمومی بات نہ کریں۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ ’فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے۔ منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے۔ فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی؟

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے۔ جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔ کیا الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس مسترد کر سکتا ہے۔ منحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا مطلب منحرف رکن کو پھانسی دینا بھی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا 63 اے کا مطلب نااہلی ہے۔

مزید دلائل کے لیے سماعت بدھ دن ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ بدھ کو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اپنے دلائل مکمل کریں گے اور تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان دلائل کا آغاز کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان