جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بن گئیں

سپریم کورٹ آف پاکستان میں منعقدہ حلف برداری کی تقریب کے بعد جب چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سے سوال کیا کہ انہوں نے جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج ترجیح دی یا پھر بطور خاتون تو انہوں نے جواب دیا ’خاتون‘۔

جسٹس عائشہ ملک نے پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں منعقد حلف برداری کی تقریب میں  چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے جسٹس عائشہ ملک سے حلف لیا۔

اس تقریب میں سپریم کورٹ کے دیگر ججز، اٹارنی جنرل اور وکلا بھی شریک ہوئے۔

تقریب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے جب چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سے سوال کیا کہ انہوں نے جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج ترجیح دی یا پھر بطور خاتون تو انہوں نے جواب دیا ’خاتون‘۔ اس کے علاوہ جب ان سے جسٹس عائشہ کی سینیارٹی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے صرف ’نہیں نہیں‘ کہا کر جواب دینے سے انکار کیا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’ساری دنیا آج پاکستان میں پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا منظر دیکھ رہی ہے‘ تو ان کا کہنا تھا: ’اللہ بڑا ہے۔‘

جسٹس عائشہ ملک ’سخت اور با اصول جج‘

جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائی کورٹ کی سخت اور بااصول جج سمجھی جاتی تھیں اور وہ بڑے بڑے فیصلے قانون کے مطابق کرکے اپنی قابلیت پہلے ہی منوا چکی ہیں۔

بطور جج عائشہ اے ملک اب تک کئی اہم مقدمات کے فیصلے سنا چکی ہیں۔ جیسا کہ خواتین کا کنوارہ پن جانچنے کے لیے ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کا مقدمہ، جس میں انہوں نے اسے نامناسب اور خواتین کے لیے تکلیف دہ مرحلہ قرار دے کر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسی طرح محکمہ انسداد دہشت گردی میں جب خواتین کی تعیناتی سے معذرت کی گئی اور پولیس حکام نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں خواتین کا حصہ لینا ان کے لیے مشکل ہے تو جسٹس عائشہ اے ملک نے اس کیس میں خواتین کو بھرتی کرکے دفتری امور پر تعینات کرنے کا حکم سنایا اور قرار دیا کہ صنفی امتیاز پر خواتین کو نوکریوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ ملک کے بڑے مقدمات جیسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما کی درخواست پر شوگر ملز جنوبی پنجاب کے کاٹن بیلٹ میں منتقل کرنے سے روکنے کا حکم، حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف کی نیب کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہونے کے بعد دونوں ججز نے اختلافی فیصلہ دیا تو اس لارجر بینچ میں جسٹس عائشہ اے ملک بھی شامل تھیں، جس نے شہباز شریف کی چند ماہ پہلے ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم سنایا تھا۔

تعلیمی قابلیت اور بطور قانون دان تجربہ

لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق 1966 میں پیدا ہونے والی جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنی بنیادی تعلیم پیرس اور نیویارک سے حاصل کی اور کراچی گرامر سکول سے سینیئر کیمبرج کیا۔

اس کے بعد انہوں نے لندن میں فرانسس ہالینڈ سکول فار گرلز سے اے لیول کیا، گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی سے بی کام اور لاہور کے پاکستان کالج آف لا سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔

بعدازاں عائشہ اے ملک ہارورڈ لا سکول، کیمبرج، میساچوسٹس، امریکہ سے ایل ایل ایم کرنے چلی گئیں، جہاں انہیں شاندار قابلیت کے لیے لندن ایچ گیمن فیلو 99-1998 کا نام دیا گیا۔

اس کے بعد 2001-1997 کے دوران انہوں نے فخرالدین جی ابراہیم اینڈ کمپنی کراچی کے ساتھ کام کیا جہاں انہوں نے سینیئر قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وکیل بھی کام کیا۔

2004 میں لا فرم کے لاہور آفس کی انچارج اور کارپوریٹ اینڈ لیگیشن ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کی۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ ماسٹرز آف بزنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں لیکچرر کی حیثیت سے قانون کی تعلیم دی۔ وہ مرکنٹائل لا، کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز، کراچی کی لیکچرر بھی رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عائشہ اے ملک ہائی کورٹس، ضلعی عدالتوں، بینکنگ کورٹ، سپیشل ٹربیونل اور ثالثی ٹربیونل میں پیش ہوچکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی قانون کے معاملات میں ماہر گواہ کے طور پر بھی بلایا گیا، جس میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے مسائل شامل ہیں۔

وہ غربت کے خاتمے کے پروگرامز، مائیکرو فنانس پروگرامز اور مہارتوں کے تربیتی پروگرامز میں شامل این جی اوز کے لیے مشیر بھی رہ چکی ہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقعے پر شائع ہونے والے پاکستان کالج آف لا کے 2006-1956 کے منتخب مقدمات کو بھی مرتب کیا۔

وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت، گھریلو عدالتوں میں بین الاقوامی قانون پر آکسفورڈ رپورٹس کے لیے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔

جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزدگی پر ردعمل

پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے ان کی نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، جس میں دیگر تین ججز کو ’نظر انداز‘ کرکے چوتھی سینیئر جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے پر تنقید کی گئی تھی۔

جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان  نے جمعرات چھ جنوری 2022 کو ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں کسی خاتون جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔

کمیشن نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا معاملہ حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا تھا۔

چھ جنوری 2022 کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق، جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ریٹائرڈ سرمدجلال عثمانی، وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے شرکت کی۔

اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ سے سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی پر غور کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ایسے ہی ایک اجلاس میں معاملہ چار، چار ووٹ سے ٹائی ہو گیا تھا جس کے وجہ سے جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کا حتمی فیصلہ نہ ہو سکا تھا۔

چھ جنوری کے اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسی بیرون ملک نجی دورے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے تھے۔ ذرائع کے مطابق پانچ اراکین نے جسٹس عائشہ کے حق میں جبکہ چار نے مخالفت میں رائے دی۔

حق میں ووٹ کرنے والوں میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل خالد جاوید اور وزیر قانون فروغ نسیم شامل تھے جبکہ مخالفت میں جسٹس سردارطارق، جسٹس مقبول باقر، جسٹس قاضی فائز عیسی اور پاکستان بار کے نمائندے اختر حسین نے ووٹ دیے۔

واضح رہے کہ پاکستان بار کے نمائندے اختر حسین نے جوڈیشل کمیشن کے تماماجلاسوں میں جسٹس عائشہ کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔

سپریم کورٹ میں مقررہ 17 ججز میں سے جسٹس مشیر عالم کی 17 اگست کو ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی نشست پر جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزدگی ہوئی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس عائشہ اے ملک کا نام تجویز کیا تھا، جس پر جسٹس عائشہ نے بھی رضا مندی کا تحریری طور پر اظہار کیا تھا۔

حقوق نسواں کے لیے سرگرم کئی تنظیموں اور کارکنوں نے جسٹس عائشہ کی تعیناتی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین