گوشت کی کمی اب کتوں سے پوری ہو گی؟

یہ کتے گلیوں سے اٹھائے جاتے ہیں، لوگوں کے گھروں سے بھی چوری کیے جاتے ہیں، بعد میں ان کو کئی روز کا طویل سفر کروایا جاتا ہے۔ سفر کے دوران ان کو سختی سے باندھا جاتا ہے ۔ ان کے منہ کو ایسی سختی سے ڈھانپ دیا جاتا ہے کہ انہیں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کچھ لوگوں کے مطابق کتے کا گوشت صحت کے لیے اچھا ہے اور وہ انسان کی جنسی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

انڈونیشیا کے شہر سولو میں گوشت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ 13 ہزار کتے ذبح کیے جاتے ہیں۔ وسطی جاوا میں واقع سراکارتا شہر سولو کے مختصر نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ حال ہی میں سولو کے ایک مذبح خانے کی  ہولناک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں  دیکھا جا سکتا ہے کہ جانوروں کو بری طرح پیٹا جا رہا ہے اور خون بہتے ہوئے زخمی حالت میں انہیں زندہ ہی لٹکایا جا رہا ہے ۔ یہ وڈیو ڈاگ میٹ فری انڈونیشیا (ڈی ایم ایف آئی) نامی ایک تنظیم کی جانب سے ایک  خفیہ تحقیق  کے دوران  بنائی گئی ہے۔ اس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ جاوا میں ماہانہ بنیادوں پر 13 ہزار سات سو کتوں کو مارکیٹ میں گوشت کی کمی پوری کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔

چینج فار اینملز فاونڈیشن کی لولا ویبر کہتی ہیں : ’یہ کتے گلیوں سے اٹھائے جاتے ہیں بلکہ لوگوں کے گھروں سے بھی چوری کیے جاتے ہیں جس کے بعد ان کو کئی روز کا طویل سفر کروایا جاتا ہے۔ سفر کے دوران ان کو سختی سے باندھا جاتا ہے ۔ ان کے منہ کو اس قدر سختی سے ڈھانپ دیا جاتا ہے کہ انہیں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کو گندے اور آلودہ مذبح خانے لے جایا جاتا ہے جہاں وہ خوف سے کانپتے اپنی باری کا انتظار کرتے باقی کتوں کو ذبح ہوتے دیکھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نظرآنے والا خوف آسیب زدہ معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ خون میں لت پت دیواریں ایک نا قابل یقین منظر پیش کرتی ہیں۔‘

ڈی ایم ایف آئی کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سولو کتوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ مغربی جاوا کتوں کی رسد کے لیے اہم  مانا جاتا ہے۔ یہاں سے گنجان آباد سولو شہر میں کتے فراہم کیے جاتے ہیں۔ جہاں وہ بے رحمانہ انداز میں ذبح کیے جاتے ہیں اور پھر شہر کے  82 ریسٹورانٹس میں بیچے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے گزشتہ ستمبر میں مقامی حکومت کو کتے اور بلی کے گوشت کی فروخت کی روک تھام کا حکم بھی جاری کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ ڈی ایم ایف آئی کی جانب سے کتوں کی گوشت کے استعمال کے خلاف 2017 سے مہم چلائی جا رہی ہے جس کی قیادت برطانوی کامیڈین رکی گرویز کر رہے ہیں۔ مہم کو کئی اور شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس گروپ کی جانب سے انڈونیشین حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ عوامی سطح  پر جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کا گوشت استعمال کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔

ایک اندازے کے مطابق انڈونیشیا کی 7 فیصد آبادی کتے کا گوشت کھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق کتے کا گوشت صحت کے لیے اچھا ہے اور وہ انسان کی جنسی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ جبکہ اس رجحان کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ کتے کا گوشت کھانا ریبیز کی بیماری سمیت کئی اور خطرناک بیماریوں کی منتقلی کی وجہ بن سکتا ہے۔ ڈی ایم ایف آئی کی جانب سے چلائی جانے والی مہم نے سولو شہر کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ کتے کو گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔ اس پابندی کا اطلاق اس سال کے آخر تک متوقع ہے۔ تنظیم کے مطابق جاوا کا کرانگنیار کا علاقہ بھی یہ اعلان کر چکا ہے وہ کتے کی گوشت کی تجارت کی اجازت نہیں دے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات