دو بھائی جو بلوغت سے قبل دو بہنیں تھیں

جنسی تبدیلی کے تجربے سے گزرنے والی دو بہنوں کی داستان۔

’جب میں سکول میں تھا تو میرے ہم جماعت مجھے کہتے تھے کہ تم لڑکے ہو اور مجھے برا لگتا تھا۔‘

یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب ان کے نام لڑکیوں والے ہوتے تھے۔ آمنہ اور مدینہ۔ مگر آب ان کے نام احسان اللہ اور لطف اللہ ہیں۔ احسن اللہ 14 سال کے ہیں جبکہ لطف اللہ 11 سال کے۔

اپنی تمام زندگی انہوں نے لڑکیوں کی طرح گزاری، لڑکیوں والے کپڑے پہنے اور لڑکیوں کے سکول میں تعلیم حاصل کیا۔ وہ کہتے ہیں انہیں کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ لڑکے ہیں مگر جیسے جیسے وہ بڑے ہوئے ویسے ہی ان کے رشتہ داروں اور لوگوں نے انہیں بتانا شروع کیا کہ وہ لڑکے ہیں۔

’جب میں سکول میں تھا تو میرے ہم جماعت مجھے کہتے تھے کہ تم لڑکے ہو اور مجھے برا لگتا تھا۔‘ احسان اللہ نے انڈپینڈنٹ فارسی سے گفتگو میں بتایا۔ ‘وہ طنزا کہتے تھے کہ تم بالکل لڑکوں کی طرح ہو۔ تمہاری داڑھی اور مونچھ ہے اور تمہیں ہمارے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ رویہ بہت افسوسناک ہوتا تھا۔’

اس ہراسانی سے لطف اللہ بھی مبرا نہیں تھے۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کلاس میں کہاں بیٹھوں۔ میں اکثر بینچ پر اپنی ہم جماعت کے ساتھ بیٹھتا تھا تو وہ مجھے بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور کہتی تھی کہ تم لڑکے ہو۔‘

جب وہ بلوغت پر پہنچے تو ان کی آواز بھاری ہونا شروع ہو گئی اور چہرے پر بال نمایاں ہونا شروع ہو گئے۔ ان کی لڑکی دوستوں نے یہ کہہ کر ملنا چھوڑنا شروع کر دیا کہ تم لڑکے ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مجھے علم تھا کہ میرے بچوں کے ساتھ کچھ مسائل چل رہے ہیں مگر میں یہ سوچ بھی سکتی تھی کہ وہ لڑکیاں نہیں ہیں۔‘ان کی والدہ نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا۔ ’وہ بڑے ہو رہے تھے اور بلوغت کو پہنچ رہے تھے انہی دنوں میرے بڑے بیٹے نے زیر ناف شدید درد سے رونا شروع کر دیا۔‘

’میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے ہماری مدد کے لیے ڈاکٹر کی تلاش شروع کر دی۔‘

بچوں کے نانا کو آخر کار ڈاکٹر مل گیا۔ لوگوں کو پتہ چلنے کے ڈر سے وہ خاموشی سے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے اور ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ بچوں کو جنس تبدیل کرنے کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد انہوں نے آپریشن کروانے کا فیصلہ کر لیا۔

دونوں لڑکوں کا آپریشن کابل کے ایک نجی ہسپتال میں دو ہفتے پہلے ہوا۔ لطف اللہ کی سرجری کو پانچ گھنٹے جبکہ احسان اللہ کے آپریشن کو چار گھنٹے لگے۔

شروع میں ان کے دوست اور رشتہ دار حیران رہ گئے۔ وہ یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ جنس تبدیل کرنا ممکن ہے۔ لیکن لوگوں کے ردعمل کی پرواہ کیے بغیر ان کے والدیں بہت خوش ہیں۔

‘ان کے انکل نے انہیں لڑکوں کا ایک ایک جوڑا لے کر دیا اور ان کے پاس صرف یہی تھا،’ ان کی والدہ نے بتایا۔ ‘تو میں اگلے دن مارکیٹ گئی، کچھ کپڑے خریدے اور درزی کو کہا کہ لڑکوں کے لیے جلد از جلد کپڑے سی دے۔’

اب احسان اللہ اور لطف اللہ نے اپنی زندگی کا ایک نیا آغاز کیا ہے۔ واحد مسئلے ان کے لیے قانونی نام کی تبدیلی رہ گئی ہے۔ ان کے شناختی کاغذات میں ان کے نام ابھی بھی آمنہ اور مدینہ ہیں جس کی وجہ سے وہ لڑکوں کے سکول میں داخلہ نہیں لے سکتے۔

ان کے والدین کے مطابق نام بدلنے میں وقت لگ سکتا ہے اور جب تک نام تبدیل نہیں ہو گا تب تک وہ سکول نہیں جا سکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس