انگریز استانی جسے راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا

ایڈتھ نامی انگریز لڑکی کی حیرت انگیز کہانی، جو مسلمان اردلی سے شادی کرکے راولپنڈی میں اسلامیات کی استانی بن گئی۔

وہ علاقہ جہاں زینب رہتی تھیں (سجاد اظہر)

یہ 20 ویں صدی کے ابتدائی عشرے میں راولپنڈی میں ایک 12 سالہ انگریز لڑکی، جو سکاٹش رجمنٹ کے ایک کرنل کی بیٹی ہے اور کرنل کے ایک اردلی اعتبار خان کی کہانی ہے، جو ضلع اٹک کی تحصیل حضرو سے تعلق رکھتا ہے اور جس کی عمر لگ بھگ 50 سال ہے۔

وہ روزانہ صبح اپنے کوارٹر میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، خوش الحان ہے لہٰذا اس کی آواز دلوں کے تار چھیڑ دیتی ہے۔ عین اس لمحے جب وہ تلاوت کر رہا ہوتا ہے تو 12 سالہ سفید فام لڑکی ایڈتھ بیلی اپنے لان میں صبح کی واک کر رہی ہوتی ہے۔

اس کو سرونٹ کوارٹر سے آنے والی تلاوت کی آواز اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ پھر یہ روز کا معمول بن جاتا ہے۔ 12 سالہ لڑکی ہر روز صبح اٹھتے ہی قرآن کریم کی تلاوت کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اسے تلاوت سننے سے منع کرتے ہیں مگر وہ نہیں مانتی۔ دو سال کے بعد کرنل کا تبادلہ بمبئی ہو جاتا ہے۔ اردلی اعتبار خان بھی کرنل کے ساتھ بمبئی شفٹ ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی ایڈتھ بیلی کا یہ معمول برقرار رہتا ہے۔

اب گھر والے بھی اس سے نہیں پوچھتے۔ شاید وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اس طرح روحانی سکون ملتا ہے۔ کچھ عرصے بعد کرنل صاحب کو واپس انگلینڈ بلا لیا جاتا ہے اور ان کا پورا خاندان بھی ان کے ساتھ واپس چلا جاتا ہے۔

اردلی اعتبار خان واپس اپنے گاؤں آ جاتا ہے جہاں اس کی ایک بیوی اور چار جوان بیٹے ہیں جو کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ایک دن اسے ایک تار ملتا ہے۔ یہ تار کرنل کی بیٹی کا ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ واپس بمبئی پہنچ چکی ہے اور اس کے پاس گاؤں آنا چاہتی ہے۔

اعتبار خان اس سفید فام لڑکی کا راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر استقبال کرتا ہے اور گاؤں چلا جاتا ہے۔ لڑکی اس سے قرآن کریم پڑھانے کی فرمائش کرتی ہے۔ اعتبار خان اسے قرآن بھی پڑھاتا ہے اور قرات بھی سکھاتا ہے۔ اسے ایک طرح کا خوف بھی ہے کہ اگر کرنل صاحب اس کی تلاش میں پہنچ گئے تو کیا ہوگا۔

ادھر کرنل صاحب کی فیملی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ایڈتھ بیلی ہندوستان واپس چلی گئی ہے۔ وہ اسے برطانیہ میں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد سفید فام لڑکی اسلام قبول کر کے اعتبار خان سے شادی کر لیتی ہے اور اس کا اسلامی نام زینب رکھا جاتا ہے۔

اعتبار خان سے اس کی دو بیٹیاں رحمت اور مکھنی پیدا ہوتی ہیں۔ زینب گاؤں کے ماحول میں ڈھل جاتی ہے، کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ اپلے تھاپتی ہے اور جانوروں کو چارہ ڈالتی ہے۔

اسی طرح سال گزرتے جاتے ہیں۔ اعتبار خان چل بستا ہے اور اس کے انتقال کے بعد ان کی پہلی بیوی اور بیٹے زینب پر زمین تنگ کر دیتے ہیں۔ وہ ان کے مظالم سے تنگ آ کر اپنی دو جوان بیٹیوں کے ہمراہ راولپنڈی صدر منتقل ہو جاتی ہے۔

یہ کہانی جو آگے جا کر ایک المناک رنگ اختیار کر لیتی ہے، ایس انعام منظور کی کتاب ’کچھ یادیں‘ کے صفحہ 42 پر درج ہے۔ 84 سالہ ایس انعام منظور راولپنڈی کے ایک ریٹائرڈ بینکر ہیں جو آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’صدر کے احاطہ شیخ فضل الٰہی میں سفید فام زینب اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ جب کرائے پر گھر لے کر مقیم ہوئیں تو ان کی میری والدہ سے دوستی ہو گئی وہ اکثر شام کو ہمارے گھر آتی تھیں۔ ان دنوں وہ گلی میں ہی وکٹوریہ گرلز سکول میں دینیات کی ٹیچر بھی تھیں۔

’میری عمر اس وقت دس سال کے قریب تھی اور ان کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔ وہ ایک نہایت خوش لباس اور نفیس خاتون تھیں، جو میری والدہ کے ساتھ اردو اور اٹک کی مقامی زبان میں بات کرتی تھیں۔ وہ ہمارے گھر آتے ہی ہلکے نیلے رنگ کا برقع اتار دیتی تھیں۔ میری والدہ سے وہ راز و نیاز کی باتیں کرتی تھیں ۔ میرے والد نیوی میں کمیشنڈ آفیسر تھے۔ جب والد گھر پر ہوتے تو وہ ان کے ساتھ نہایت شستہ لہجے میں انگریزی میں گفتگو کرتیں۔ والد صاحب ان دنوں 555 کے سگریٹ پیتے تھے۔ جب والد گھر ہوتے تو وہ ان سے انگریزی میں کہتیں:

 Doctor will you please give me a 555 cigarette?

’وہ میرے والد کے ساتھ سیاست، سماج اور ادب پر گفتگو کرتی تھیں۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ان کا ایک بھائی بہن کی تلاش میں برطانیہ سے راولپنڈی پہنچ گیا۔ مگر استانی جی نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ یہاں بچوں کو پڑھا کر زیادہ خوش ہیں اور یہاں کے لوگوں کو میری ضرورت ہے۔ استانی جی کی بڑی بیٹی مکھنی کی شادی شمس آباد ضلع اٹک کے نواب ملک قیوم سےجبکہ دوسری بیٹی رحمت کی شادی ایک مقامی شخص نصر اللہ بیگ سے ہو چکی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مکھنی کی بیٹی کا نام منور تھا جس کی شادی ملک قیوم کے خاندان کے ایک کیپٹن امداد حسین کے ساتھ ہوئی تھی وہ اکثر اپنی نانی سے ملنے احاطہ شیخ فضل الہٰی میں آیا کرتی تھی۔ ایک روز منور کا ڈرائیور گاڑی ریورس کر رہا تھا کہ ایک کمسن بچہ گاڑی کے نیچے آ گیا۔ منور اسے لے کر فوراً ہسپتال پہنچی مگر ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ مر چکا ہے۔ یہ بچہ محلے کے ایک کوچوان حمید کا تھا۔ حمید کسی صورت منور کے ڈرائیور کو معاف کرنے پر تیار نہ تھا۔ جبکہ منور کہتی رہی کہ یہ ایک حادثہ ہے اور اس کے تاوان کے طور پر وہ منہ مانگی رقم دینے کو بھی تیار ہے مگر حمید جو ایک بدقماش قسم کا تھا، اس نے قسم کھائی کہ وہ اس کے بدلے سات خون کرے گا۔ اس وقت کسی نے اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مارچ 1947 میں شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اگست کے پہلے ہفتے کی بات ہے۔ ایک دن استانی جی کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کی دونوں بیٹیاں اور ان کی ایک رشتہ دار خاتون بھی انہیں دیکھنے گھر آ گئیں۔ حمید کوچوان شہر کے خراب ہوتے حالات میں ایک خطرناک کھیل کھیلنے جا رہا تھا۔ اس نے شہر کے کچھ بدمعاش لوگوں کو ساتھ ملایا کہ یہاں ہندو رہتے ہیں اور انہیں مارنا ہے۔ شہر کے علاقوں میں لوٹ مار جاری تھی۔ ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں ہندوستان جا رہے تھے مگر کینٹ کے حالات پرسکون تھے مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ حمید کوچوان کینٹ میں خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔

آدھی رات کے وقت جب میم استانی اپنی دو بیٹیوں، ایک خاتون اور ایک نواسے کے ساتھ سو رہی تھی تو حمید کوچوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیڑھی لگا کر صحن میں اتر گیا۔ اس نے لمحہ بھر میں چارپائیوں پر لیٹی خواتین پر چاقوؤں کے وار کیے۔ دو خواتین اور استانی کا نواسا بچ گئے۔ صبح ہوتے ہی شہر میں کہرام مچ گیا۔ مقدمہ چلا اور پاکستان بننے کے بعد حمید کوچوان کو پھانسی ہو گئی۔‘

میم استانی جس گھر میں قتل ہوئیں وہ گھر آج بھی احاطہ شیخ فضل الہٰی میں موجود ہے۔ شیخ فضل الہٰی جنہوں نے اس احاطے کی بنیاد رکھی تھی وہ ملٹری کنٹریکٹر تھے جو بھیرہ سے راولپنڈی آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کے پوتے الطاف الہٰی شیخ کی عمر اس وقت 83 سال ہے وہ سابق جج اور وکیل ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وکٹوریہ سکول ان کے دادا نے بنایا تھا اور اسی سکول میں میم استانی پڑھاتی تھیں اور ہمارے ہی مکان میں وہ کرائے پر رہتی تھیں۔ ان کی داستان نہایت المناک ہے کہ ایک نو مسلم خاتون جس نے ہمیں اور دوسرے مسلمان بچوں کو قرآن کی تعلیم دی وہ ایک جاہل، متعصب اور بدقماش انسان کی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کینٹ جیسے محفوظ علاقے میں ایسی بھیانک واردات ہو سکتی ہے۔ یہاں کا ماحول یگانگت اور مذہبی رواداری پر مشتمل تھا۔ ایک بار جب میں بیمار ہو گیا تو میری دادی دعا کروانے پنڈت کے پاس چلی گئیں۔ جب فسادات زوروں پر تھے تو سکھ ڈاکٹر کو جب معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کا بیٹا بیمار ہے تو وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے مجھے دیکھنے گھر آ گیا۔ کینٹ میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے جہاں گورکھا رجمنٹ تعینات تھی وہیں سجھان سنگھ کے نواسوں نے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل ایک امن کمیٹی بھی بنا رکھی تھی جس کی وجہ سے کینٹ میں تقسیم کے وقت میم استانی کے علاوہ صرف ایک سکھ قتل ہوا جوبھوسہ منڈی میں مورچہ زن تھا کہ کسی سمت سے آنے والی گولی کا نشانہ بن گیا۔

شہر میں کافی قتل وغارت ہوئی مگر کینٹ میں میم استانی کے المناک قتل کا دکھ آج بھی تازہ ہے۔ اس کے بعد آنے والی تیسری نسل کو بھی معلوم ہے کہ یہاں ایک میم استانی رہا کرتی تھی جو سکول میں قرآن ٹیچر تھیں اور جنہیں ایک بدقماش کوچوان نے قتل کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ