غیرت کے نام پر 9 قتل: ’ملزم کے چہرے پر کوئی تاسف نہیں تھا‘

دوران تفتیش جب میں نے اجمل کو بتایا کہ آپ نے اپنے بچوں کو مار دیا ہے تو انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اشتعال میں ملزم کو یہ بھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ کس کس کو مار رہا ہے، سی پی او ملتان عمران محمود

اجمل نے دعویٰ کیا کہ کرن کی بہنیں ڈانس پارٹیوں میں آتی جاتی رہتی تھیں اور کرن کو بھی لے جاتی تھیں جس کی وجہ سے کرن کے ایک شخص سے مراسم قائم ہو گئے اور اس شخص کے ساتھ لی گئ تصاویر اجمل کو سعودی عرب میں کسی نامعلوم شخص نے ارسال کر دیں( فائل، روئٹرز)

ملتان میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بچوں اور سسرال کے سات افراد سمیت مبینہ طور پر شک کی بنا پرغیرت کے نام  پر قتل کر کے ان کے گھر کو نذرآتش کردیا۔  

سی پی او ملتان عمران محمود کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ملزم کی بیوی، دو بچے، تین سالیاں، ساس اور بیوی کا بھانجا اور بھانجی شامل ہیں۔

سی پی او نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم اجمل نے دوران تفتیش اپنے بیان میں کہا کہ گذشتہ 20 برس سے وہ سعودی عرب میں درزی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کرن ان کے ساتھ سعودی عرب میں ہی مقیم تھیں مگر ایک ڈیڑھ برس پہلے وہ پاکستان واپس آگئی تھیں۔

اجمل نے دعویٰ کیا کہ کرن کی بہنیں ڈانس پارٹیوں میں آتی جاتی رہتی تھیں اور کرن کو بھی لے جاتی تھیں جس کی وجہ سے کرن کے ایک شخص سے مراسم قائم ہوگئے اور اس شخص کے ساتھ لی گئی تصاویر اجمل کو سعودی عرب میں کسی نامعلوم شخص نے ارسال کر دیں۔

سی پی او ملتان نے مزید بتایا: ’یہ صاف صاف غیرت کے نام پر قتل ہے۔ ملزم اپنی بیوی کے کردار پر شک کرتے تھے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں وطن واپس آئے۔ ان کی اہلیہ کرن چونکہ ان کا ارادہ بھانپ گئی تھیں، اسی لیے وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’جب اجمل کو موقع نہ ملا تو اتوار کی شام وہ اپنے والد ظفر کے ہمراہ حسن آباد اپنے سسرال گئے جہاں پر انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اپنی بیوی، دو بچوں، تین سالیوں، ساس اور کرن کی بھانجی اور بھانجے کو قتل کر دیا۔‘

سی پی او ملتان نے مزید بتایا کہ قتل کرنے کے بعد اجمل نے پٹرول چھڑک کر گھر کو آگ لگا دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس افسر نے کہا: ’دوران تفتیش جب میں نے اجمل کو بتایا کہ آپ نے اپنے بچوں کو مار دیا ہے تو انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اشتعال میں ملزم کو یہ بھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ کس کس کو مار رہا ہے، لیکن اجمل کے چہرے یا لہجے میں کوئی تاسف نہیں تھا۔‘

سی پی او عمران نے کہا کہ اجمل نے اپنے والد ظفر کو اپنی بیوی کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ ایسا ممکن ہے کہ ان کے والد کو اس بات کی رنجش ہو اسی لیے وہ بیٹے کے ساتھ موقع پر گئے۔

اجمل اور ظفر اس وقت پولیس حراست میں ہیں جبکہ کرن کے بھائی علی رضا نے مقدمے میں اجمل کے بھائی اشمل کو بھی نامزد کیا ہے اور پولیس ان کی تلاش میں ہے۔

 مقدمے کے مدعی علی رضا نے کہا کہ ملزم اجمل ایک شکی مزاج انسان ہیں جو اپنی اہلیہ اور ان کی بہنوں پر شک کیا کرتے تھے۔ ’کچھ عرصہ قبل ہی وہ سعودی عرب سے واپس آئے اور ٹھیک ٹھاک رہے لیکن جب میری بہن کرن نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ سسرال سے لیے گئے پیسے واپس کریں تو اس پر وہ جھگڑنے لگے جس کے بعد کرن بچوں کو لے کر ہمارے گھر آگئیں۔‘

علی رضا نے مزید کہا کہ اجمل اتوار کی شام اپنے والد ظفر کے ہمراہ ان گھر آئے، ہم نے کولڈ ڈرنک سے ان کی تواضع کی کہ اچانک وہ اٹھے اور انہوں نے گولیاں برسا دیں، جس کی زد میں ان کی بہن عاصمہ آگئیں۔

علی کے مطابق، کرن انہیں بچانے آگے بڑھیں تو اجمل نے انہیں بھی ہلاک کر دیا۔ ’میں نے اجمل کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر ان کے والد ظفر نے میرے سر پر کسی بھاری چیز سے ضرب لگائی جس سے میں زخمی ہوکر گرگیا۔‘

علی نے کہا کہ اجمل گولیاں چلاتے رہے جبکہ ظفر ان کو بھرے ہوئے میگزین پکڑاتے رہے۔ ’اسی اثنا میں میری بہن روما جان بچا کر گھر سے نکل کر ہمسایوں کے گھر چلی گئی تاکہ مدد مانگ سکیں۔ اجمل اور ظفر ان کے پیچھے بھاگے، میں بھی بھاگا مگر گر گیا۔‘

انہوں نے  مزید بتایا: ’محلے داروں نے مجھے بچانے کی غرض سے ایک اور گھر میں پناہ دی۔ اجمل نے ہمارے ہمسائے خدا بخش کو دھمکایا کہ اگر انہوں نے روما کو باہر نہ نکالا تو وہ انہیں مار دیں گے۔ جس پر روما خود ہی باہر آگئیں اور اجمل نے انہیں بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد اجمل نے پٹرول چھڑک کر گھر کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے گھر کے اندر موجود زخمی اور ہلاک افراد جھلس گئے۔‘

علی رضا نے جب انڈپینڈنٹ اردو سے بات کی، اُس وقت وہ نشتر ہسپتال ملتان میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ کب لاشوں کا پوسٹ مارٹم مکمل ہو اور وہ تدفین کے لیے انہیں گھر لے جائیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ورلڈ رپورٹ 2019 کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر ہر سال اوسطاً ایک ہزار جانیں لی جاتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین